لکھنؤ،30مئی،مجھے فخرمحسوس ہورہاہے کہ آج مجھے ایک شخص ہی نہیں شخصیت پربات کرنے کے لئے اس پُروقارجلسے میں شریک ہونے کاموقع ملا۔ ڈاکٹرستیش رائے کاسفرنامہ ’رومانسنگ وِدھ سنیما‘ ایک ایسی کتاب ہے، جس سے ان کی بے پناہ صلاحیتو ں کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ڈاکٹرستیش رائے نے بہت سے ملکوں کاسفرکیااوربے پناہ تجربات حاصل کئے،پھرتواس کے بعد ظاہرہے کہ ان کے قلم سے جوکچھ کاغذ پراترا ہے ،قدر کرنے کے قابل ہے،سنیماسے عشق نے ان کوفلموں کاپروڈیوسربنایا۔وہ مصنف کی حیثیت سے اس لئے کامیاب نظرآتے ہیں کہ پستیوں کی سیراُن کاpassionہے اوراس سے ان کے فن کوتحریک ملتی ہے،وہ کہیں ٹھہرنا نہیں چاہتے،ان کے حوصلے بلند سے بلند ترہوتے جارہے ہیں،وہ ایسی چیزو ں پرنظر رکھتے ہیں،جن کوعام طورپرنظرانداز کردیاجاتا ہے۔اوریہ پہلوبہت متاثر کرنے والا ہے۔انہو ں نے مزید کہا کہ اچھی تخلیق کے لئے اچھے تخلیق کاروں کوپڑھنا بے حد ضروری ہے۔اچھی کتابیں اوران کے مصنفین نفرت کے راستے سے نکال کر محبت کاراستہ دکھاتے ہیں جو ملک کو ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔ سفرنامہ جس پرآج بات ہونا ہے۔میری نیک خواہشات اس کتاب اورمصنف دونوں کے لئے پیش ہیں۔اس مذاکرہ کے ساتھ ہی کتاب کااجرا بھی مہمانان کے بدست خوشگوارتبصرہ کے ساتھ عمل میں آیا۔ہمیں پورایقین ہے کہ پڑھنے والوں کے لئے وہ ایک قیمتی اورمفید کتاب ثابت ہوگی۔مذکورہ خیالات کا اظہار ’رومانسنگ وِدھ سنیما‘کتاب کے مذاکرہ میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے اسلامیہ وممتازپی جی کالج کے منیجراطہرنبی ایڈوکیٹ نے کیا۔مذاکرہ ورسم اجراکا انعقادٹیگورلائبریری لکھنؤ یونیورسٹی میں کیاگیا۔
کتاب کے مصنف ڈاکٹرستیش رائے نے رسم اجرااورمذاکرہ پروگرام میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت سے ملکوں کاسفرکیااورآج بھی کر رہا ہوں، مگر جو بات اپنے ملک کی مٹی میں ہے وہ کہیں اورنظرنہیں آتی،اپنی تازہ کتاب ’رومانسنگ وِدھ سنیما‘کاحوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم نے اس کتا ب میں اپنے سارے تجربات نچوڑ کررکھ دیئے ہیں۔ اوریہ آپ لوگوں کی ڈھیرساری محبت ہی ہے کہ جوآج میں مختلف جہتوں اورمیدانوں میں کام کرنے کے قابل ہواہوں۔مسٹرستیش رائے نے لکھنے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں صرف انسانی برادری کے بارے میں سوچنا چاہئے،ہمارے بہت سے مسائل خودہماری دانشمندی کی کمی کا نتیجہ ہے۔انہوں نے طلباء اوراساتذہ کے ذریعے پوچھے گئے دلچسپ سوالات کے جوابات بھی نہایت دلچسپ اندازمیں دیے، جس سے وہاں موجود تمام حضرات مستفیدہوئے۔
مہمانِ اعزازی چندرپرکاش نے کہاہمارے محترم مصنف میں ایک خوبی نہیں بلکہ بہت زیادہ خوبیوں اورصلاحیتوں کے مالک ہیں ،اوریہ بیک وقت مصنف،ہدایت کار، ڈرامہ نگار اورفلم میکربھی ہیں،ان کازیادہ تر وقت ملک کے باہر گزرا،مگریہ غریب الوطنی میں بھی اپنے ملک کی یادوں ،روایتوں اوررسموں سے ذرابھی دورنہیں ہوئے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں،جوان کی مقبولیت کی پہچان ہے۔امید ہے کہ ان کی کتاب ’رومانسنگ وِدھ سنیما‘اپنے قارئین کے لئے مشعل راہ ثابت ہو۔
مہمانِ ذی وقار ممبئی سے تشریف لائے مشہورفلم رائٹراسلم زردارخاں نے کتاب ’رومانسنگ وِدھ سنیما‘ اورمصنف کے بارے میںاظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرستیش رائے ایک ایسے مصنف ہیں،جن کی کتابوں کاقاری انتظارکرتا رہتا ہے۔اورجس ایونٹ میں بھی ان کی کتاب کے متعلق اورحوالے پروگرام ہوتا ہے وہ شہرکے کامیاب ترین پروگراموں میں سے ایک ہوتا ہے۔اس سے قبل ممبئی میں بھی ا ن کاکامیاب ترین پروگرام ہوچکاہے۔اسلم خاں نے مزیدکہا کہ ان کی کتاب اورخدمات کوملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پرپہچان دلانے کے لئے زیادہ کوشش کی ضرورت نہیں،کیونکہ ستیش رائے کاکام خود بولتا ہے کہ مجھے پڑھا جائے،ڈاکٹرستیش رائے فلمی دنیا میں بہت سے میدانوں میں اپنی خدمات انجام دی ہیں،اس میں اداکاری سے لیکر،رائٹنگ،مکالمے اورنغمے تک شامل ہیں۔اورمجھے امید ہے کہ ڈاکٹرستیش رائے کی ’رومانسنگ وِدھ سنیما‘ آخری کتاب نہیں ہوگی،بلکہ ان کے قلم سے مزید نگارشات نکلتی رہیں گی اوران کے چاہنے والے اورقاری مستفید ہوتے رہیں گے۔میری اورستیش جی کی دوستی کافی پرانی ہے ،اچھے مصنف کے ساتھ ساتھ وہ بہت نیک ،مخلص اورایمان دارشخصیت کے مالک بھی ہیں۔
صدرشعبہ پروفیسرایم پریادرشنی ،کوآرڈینٹراو این اپادھیائے سی آئی ڈی سی ایس نے کہا کہ کتابیں اصلاح معاشرہ کا کام کرتی ہیں اوریہ موقع بہت اہم ہے اسلئے کہ آج کتاب کی اجرا کے ساتھ فکری ہم آہنگی پر مکالمے کا دوربھی چل رہاہے،اس لئے قوی امید ہے کہ آج کے مذاکرے سے ہندوستانی سماج پرمثبت اثرات ضرور مرتب ہوں گے اور ہم سبھی ذی شعورافرادایک مقصدی پیغام لیکرجائیں گے تاکہ ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اورملک سے نفرتوں کی اٹھتی ہوئی دیوار کو گراسکیں،مذکورہ کتاب پورے معاشرے میں مثبت تبدیلی کا باعث ثابت ہوگی اوریہ مذاکرہ مکدرقلوب کوروح افزا کردے گا۔آخرمیں او این اپادھیائے نے مہمانان کاشکریہ اداکیا۔اس موقع پربطورخاص ممازپی جی کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹرعبدالرحیم ،صحافی، ضیاء اللہ صدیقی،ڈاکٹرلیاقت، محمدمعروف،محمداریب وغیرہ اوردیگرشعبوں کے صدور اوراساتذہ کثیر تعداد میں خاص طور سے موجود رہے۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلراپنی مصروفیات کی وجہ سے پروگرام کاحصہ نہیں بن سکے،مگر انہوں نے اپناتحریری پیغام بھیجاتھاجس کوپروفیسرنشی پانڈے نے پڑھ کرسنایاانہوں نے پروگرام کے لئے اپنی نیک خواہشات کااظہارکیااورکتاب کے اجرااورمذاکرہ کے موقع پرمبارکباد بھی پیش کی۔