دس سے زائد ریاستوں میں ایکشن کے بیچ پی ایف آئی سے وابستہ 100 سے زائد رہنماوؑں کی گرفتاری
نئی دہلی( ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک):قومی تفتیشی ایجنسی کی قیادت میں مختلف ایجنسیوں نے جمعرات کے روز دس سے زائد ریاستوں میں مسلم تنظیم ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ کے دفاتر پر چھاپے مارے۔ خبر یہ بھی ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں فرنٹ کے تقریباً سو رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق ملک میں ’یہ آج تک کی سب سے بڑی تفتیشی کارروائی‘ ہے۔ چھاپے مارنے کی کارروائی بدھ کو آدھی رات کے بعد شروع ہوئی تھی۔
باخبر ذرائع کی اطلاع کے مطابق قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کی قیادت میں دس سے زائد ریاستوں میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے دفاتر پر ایک ساتھ چھاپے ما رے گئے۔ چھاپے مارنے کی اس کارروائی میں ریاستی تفتیشی ایجنسیوں نے بھی حصہ لیا۔ جمعرات کی صبح تک پی ایف آئی کے تقریباً 100رہنماؤں کو گرفتارکیا جا چکا تھا۔ یہ چھاپے پی ایف آئی کے مبینہ طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مارے گئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق چھاپے مارنے میں این آئی اے کے علاوہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور ریاستی پولیس فورسز بھی شامل تھیں۔ جن ریاستوں میں چھاپے مارے گئے، ان میں کیرالا، تامل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ، بہار، اتر پردیش، راجستھان، آسام، مدھیہ پردیش، پانڈو چیری اور قومی دارالحکومت دہلی شامل ہیں۔
این آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایف آئی کے دفاتر اور اس سے وابستہ افراد کے گھروں پر دہشت گردی کی فنڈنگ میں ملوث ہونے، تربیتی کیمپوں کا انعقاد کرنے اور ممنوعہ تنظیموں میں شامل ہونے کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کرنے کے الزامات کے تحت تلاشیاں لی گئیں اور انہیں گرفتار کیا گیا۔
دریں اثناء پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے ان چھاپوں کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ’فسطائی حکومت‘ کی طرف سے زیادتیوں کی تازہ ترین مثال ہیں۔ فرنٹ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ پی ایف آئی کے قومی، ریاستی اور مقامی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ ریاستی کمیٹی کے دفتر پر بھی چھاپے مارے گئے۔ بیان میں مزید کہا گیاہے کہ ہم فسطائی حکومت کے اس اقدام کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہیں جو وہ حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے ایجنسیوں کا استعمال کر کے کر رہی ہے۔
آپ کو بتادیں کہ پی ایف آئی خود کو ایک ایسی تنظیم قرار دیتی ہے، جو ’’بالخصوص ملک کے محروم اور پسماندہ طبقات اور تمام شہریوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی اور ان کو ثقافتی اور سیاسی طور پر با اختیار بنانے کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کا قیام سن 2007 میں جنوبی ہند کی تین مسلم تنظیموں کے انضمام کے ساتھ عمل میں آیا تھا۔ اس کا صدر دفتر نئی دہلی میں ہے۔ پی ایف آئی کا ایک خواتین ونگ اور ایک طلبہ ونگ بھی ہے۔ کیرالا اور کرناٹک میں پی ایف آئی کے کارکنوں اور آر ایس ایس کے کارکنوں کے درمیان پرتشدد تصادم کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔ جرمن خبررساں ادارہ ڈوئچ ویلے کی اطلاع کے مطابق سن 2012 میں کیرالا کی ریاستی حکومت نے پی ایف آئی کو ممنوعہ طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کی ’تبدیل شدہ شکل‘ قرار دیا تھا تاہم ریاستی ہائی کورٹ نے اس حکومتی موقف کو مسترد کر دیا تھا۔
حکومت پی ایف آئی کے خلاف مبینہ طور پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک گیر مظاہروں کو ہوا دینے اور فروری 2020 میں دہلی کے فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے سے متعلق الزامات کی بھی تفتیش کر رہی ہے۔ پی ایف آئی نے تاہم بارہا ان الزامات کی تردید کی ہے۔