نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک):پڑوسی ملک نیپال میں غالباً تاریخ میں پہلی بار رام نومی کے موقع پر شوبھا یاترا میں شریک لوگوں نے فرقہ واریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قریب میں واقع ایک مسجد کے باہر ہنگامہ کھڑا کردیا۔ یہ واقعہ نیپال کے شہر جنک پورکا ہے،جہاں جانکی مندر کے پیچھے ایک مسجد ہے۔ شوبھا یاترا میں شامل درجنوں بھگوا دھاریوں نے مسجد کے قریبمسلم مخالف نعرے بازی کی۔جنک پور کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کا واقعہ یہاں پہلی بار ہوا ہے۔
واقعہ کے عینی شاہد ایک مقامی صحافی نے بی بی سی کو بتایاکہ شوبھا یاترا آس پاس کے کئی گاؤں سے جنک پور پہنچ رہی تھی۔ جیسے ہی یاترا جنک پور کے لاڈو بیلہ روڈ پر پہنچی تو لوگ مشتعل ہو گئے اور نعرے لگانے لگے۔ لاڈو بیلہ روڈ کے آس پاس مسلمانوں کی بستیاں ہیں۔ لاڈو بیلہ روڈ ایک طرح سے جنک پور کا گیٹ وے ہے۔ یہاں ایک بس سٹینڈ بھی ہے۔ جارحانہ نعرہ سن کر مسلمان بھی متحد ہونے لگے۔ کچھ ہی دیر میں مسلمان اپنی چھتوں پر چڑھ گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ بڑا نہیں ہوگا۔ بھیڑ بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ شوبھا یاترا میں شریک ہندوؤں کی جانب سے لگائے گئے نعروں کے جواب میں مسلمان بھی جارحانہ ہو گئے۔ بھگوا دھاری مندر کے پیچھے مسجد پہنچ گئے۔ مسجد کے گیٹ پر بھگوا جھنڈا لہراتے ہوئے لوگ جئے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔ لوگ بہت جارحانہ تھے۔ علاقے کے مسلمان حیران رہ گئے۔ مسلمانوں نے سب سے پہلے پولیس کو اطلاع دی۔ جب پولیس موقع پر پہنچی تو بھگوا پوش لوگ وہاں سے فرار ہوگئے۔کچھ دیر بعد، بجرنگ دل کے ارکان کا ایک اور گروپ پہنچ گیا، اس بار علاقے کے مسلمان بھی غصے میں تھے، پولیس نے لوگوں کو بھگا دیا، لیکن اگلی گلی میں بھگوا دھاری اور علاقے کے کچھ مسلمان آپس میں لڑ پڑے۔
جنک پور کے چیف ڈسٹرکٹ آفیسر کاشی دہل نے بی بی سی کو بتایا کہ بھگوا پوش درجنوں شرپسند جلوس کے بعد مسجد پہنچے تھے۔کاشی دہل نے کہا کہ ہم ویڈیو دیکھنے کے بعد لوگوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے علاقے کے مسلمانوں کو ضلعی دفتر بلایا ہے۔ ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ اپنی حفاظت کی فکر نہ کریں۔ جنک پور میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں یہاں ایسی چیزیں بڑھ گئی ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے وزارت داخلہ سے بھی بات کی ہے۔ ہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔کاشی دہل کا کہنا ہے کہ شوبھا یاترا وشو ہندو پریشد نے نکالی تھی، لیکن مسجد کے سامنے ہنگامہ کرنے والے کون لوگ تھے، اس کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
اس معاملے میں نیپال کے مسلم کمیشن نے انتظامیہ سے مجرموں کی شناخت کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔