سری نگر(یو این آئی)نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے پیر کے روز کہاکہ ”شمالی کشمیر سے نیشنل کانفرنس کو ہرانے کیلئے نئی دلی، ناگپور، حکومت اور بھاجپا پوری طرح کوشاں ہے اور اسی لئے وہ یہاں جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں اور میرے خلاف اپنے آلہ کاروں کو اکٹھا کررہے ہیں، اس کے باوجود میں نے یہ چیلنج قبول کیا ہے اطلاعات کے مطابق ہندواڑہ میں عوامی جلسے سے خطاب کے دوران عمر عبداللہ نے کہا کہ ایک شخص مجھے یہاں ٹورسٹ کا نام دیتا ہے، اگر میں ٹورسٹ ہوں تو وہ بھی ٹورسٹ ہے، وہ بھی سرینگر میں رہتا ہے اور میں بھی زیادہ تر سرینگر میں ہی قیام پذیر ہوتا ہوں-
عمر عبداللہ نے کہا کہ جب گذشتہ ہفتے یہاں سیلابی صورتحال قائم ہوئی میں نے 12گھنٹے تک پورے ضلع کا دورہ کیا اور اپنے کام کرنے کا طریقہ یہاں کے لوگوں کو دکھایا، اور جو مجھے ٹورسٹ کہتا ہے اُسے بستر سے گھسیٹ کر نکالا گیا اور وہ صرف 2گھنٹے میں تھک گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ پہلے مجھے ٹورسٹ کہتے تھے لیکن اب نامزدگی داخل کرنے کے بعد ان کی بولی تبدیل ہوگئی ہے، اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ عمر عبداللہ بارہمولہ نشست سے اس لئے لڑنے کیلئے آئے کیونکہ یہ نیشنل کانفرنس کیلئے محفوظ نشست ہے اور ان کے موقف میں یہ تبدیلی ہمارا بارہ مولہ کا پروگرام دیکھنے ہی آگئی۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ بھاجپا نے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن چھینی، یہاں کا جھنڈا چھینا، ہماری ریاست کے دو ٹکڑے کردیئے ، مسلمانوں کیخلاف نہ صرف نفرت پھیلا رہے ہیں بلکہ یکساں سول کوڈ اور سی اے اے جیسے قوانین بناتی ہے لیکن پھر بھی کشمیر کی سیاسی جماعتوں کا نشانہ نیشنل کانفرنس ہے۔
عمر عبداللہ نے کہاکہ جو شخص مجھے پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتا ہے ، وہ کم از کم لوگوں کو اتنا بتادے کہ 2018میں کس خاطے میں بھاجپا کی حمایت لیکر وزیر اعلیٰ بننے کی کوشش کررہا تھا؟ اور آج کل وہ کس بنیاد پر بھاجپا کی مدد سے اپنے لئے حمایت حاصل کررہا ہے؟پی
پی ڈی پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ قلم دوات جماعت کا جو اُمیدوار یہاں سے میدان میں ہے وہ دفعہ370پر راجیہ سبھا میں ووٹنگ کے دن غیر حاضر رہاہے؟ صرف پارلیمنٹ کے باہر ڈرامہ کیا لیکن ووٹنگ کے روز غیر حاضر رہا۔ اُس وقت بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اکثیریت نہیں تھی، اس کے باوجود وہ غیر حاضر رہا اور درپردہ طور پر مودی کی مددی کی۔ کیا آپ ایسے ہی نمائندے کو پارلیمنٹ بھیجنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کی تاریں آج بھی جڑی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کی مدد و اعانت میں لگے ہوئے ہیں۔