حیدرآباد:تلنگانہ اسمبلی چناؤ میں بائیں بازو جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کے مسئلہ پر بی آر ایس میں اختلافات منظر عام پر آچکے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے سی آر نے اسمبلی کے ضمنی چناؤ میں بائیں بازو جماعتوں کی تائید حاصل کی تھی جس کے بعد انہوں نے اسمبلی انتخابات میں سی پی آئی اور سی پی ایم سے مفاہمت کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں اگرچہ باقاعدہ مذاکرات نہیں ہوئے لیکن پارٹی کے سینئر قائدین اور کئی ارکان اسمبلی نے بائیں بازو سے اتحاد کی مخالفت کی ہے۔ سیاست نیوزکے مطابقپارٹی کے ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی راما راؤ پر دباؤ بنایا جارہا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کریں۔ کے ٹی آر سے کئی ارکان اسمبلی نے ملاقات کرتے ہوئے 2014 اور 2018 کی طرح اس مرتبہ بھی تنہا مقابلہ کی تجویز پیش کی ہے۔ ارکان اسمبلی اور قائدین کی رسائی چونکہ کے سی آر تک نہیں ہے لہذا کے ٹی راما راؤ پر دباؤ بڑھنے لگا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کے ٹی آر نے اس مسئلہ پر پارٹی صدر کے سی آر سے مشاورت کرنے اور ارکان اسمبلی کے جذبات سے واقف کرنے کا تیقن دیا ہے۔
بیشتر ارکان اسمبلی کو اندیشہ ہے کہ مفاہمت کی صورت میں وہ نشستوں سے محروم ہوسکتے ہیں کیونکہ سی پی آئی اور سی پی ایم نے تقریباً 25 تا 30 نشستوں پر اپنی دعویداری پیش کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سی پی آئی اور سی پی ایم نے جن حلقہ جات پر اپنا دعویٰ پیش کرنے کی تیاری کی ہے ان میں سے بیشتر حلقوں میں بی آر ایس کے ارکان اسمبلی ہیں۔ موجودہ ارکان اسمبلی نشست سے محروم ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں لہذا انہوں نے بائیں بازو جماعتوں سے اتحاد کی مخالفت شروع کردی ہے۔ بائیں بازو کی پارٹیاں کھمم اور نلگنڈہ اضلاع میں مقابلہ میں دلچسپی رکھتی ہیں اور دونوں اضلاع کی اکثریتی نشستوں پر بی آر ایس کا قبضہ ہے۔ گذشتہ سال منگوڑ کے ضمنی چناؤ میں کانٹے کی ٹکر کو دیکھتے ہوئے کے سی آر نے سی پی آئی اور سی پی ایم سے بات چیت کی تھی۔ بائیں بازو کی تائید کے نتیجہ میں بی آر ایس امیدوار کو کامیابی حاصل ہوئی۔ کے ٹی راماراؤ نے نشستوں کے بارے میں فکر مند ارکان اسمبلی کو یقین دلایا کہ ان کی نشستوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا اور بائیں بازو کی جانب سے کسی سیٹنگ ایم ایل اے کی نشست کی مانگ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ کے ٹی آر نے تیقن دیا کہ وزیراعلیٰ جلد ہی اس مسئلہ پر کوئی فیصلہ کریں گے۔ بی آر ایس نے ابتداء میں سی پی آئی اور سی پی ایم کو تین تا چار نشستیں الاٹ کرنے کا پیشکش کیا تھا لیکن دونوں پارٹیوں کیلئے یہ پیشکش قابل قبول نہیں ہے۔ سی پی ایم کے ریاستی سکریٹری ویرا بھدرم حلقہ اسمبلی پالیر اور سی پی آئی کے ریاستی سکریٹری کے سامبا سیوا راؤ کتہ گوڑم اسمبلی حلقہ سے مقابلہ کے خواہاں ہیں۔ سینئر لیڈر چاڈا وینکٹ ریڈی نے حسن آباد اسمبلی حلقہ سے دعویداری پیش کی ہے۔ مریال گوڑہ اور نکریکل اسمبلی حلقہ جات بھی بائیں بازو کی فہرست میں شامل ہیں۔ بی آر ایس ارکان اسمبلی کا ماننا ہے کہ اسمبلی نشستوں کے بجائے بائیں بازو کو کونسل کی نشست کے مسئلہ پر مفاہمت کی جائے۔ دونوں پارٹیوں کو فی کس دو، دو کونسل کی نشستیں الاٹ کی جائیں تاکہ بی آر ایس کی اسمبلی نشستوں میں کوئی کمی نہ رہے۔ دوسری طرف سی پی آئی نے کانگریس کے ساتھ مفاہمت کا اشارہ دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پارٹی کے کئی سینئر قائدین نے تازہ ترین سیاسی صورتحال میں بی آر ایس کے بجائے کانگریس سے مفاہمت کو ترجیح دی ہے۔