حیدرآباد (ایجنسیاں) ٹی آر ایس ایم ایل سی کے کویتا نے بلقیس بانو کیس مجرمین کی رہائی کی مذمت کی اور سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل کی ۔ مجرموں کا خیرمقدم کو سماج کے منہ پر طمانچہ قرار دیا ۔ کے کویتا نے ٹوئیٹس کرکے عصمت ریزی مجرموں کی رہائی کے فیصلے سے دستبرداری کا حکومت سے مطالبہ کیا اور کہا کہ مجرموں کی جیل سے رہائی کے موقع پر جس طرح ان کا استقبال کیا گیا اس طرح کی روایت ملک کیلئے باعث شرم ہے ۔ یہ سلسلہ روکنا چاہئے ۔ کویتا نے کہا کہ غور طلب ہے کہ گجرات حکومت نے عام معافی کے تحت بلقیس بانو کے مجرموں کو /15 اگست کو رہا کردیا ۔ جیل میں عمر قید کی سزاء کاٹنے والے 11 مجرمین کا جیل کے باہر ایک تنظیم اور ارکان خاندان نے شیرینی و آتشبازی کے ساتھ پھولوں کا ہار پہنا کر استقبال کیا جو باعث شرم ہے ۔
خیال رہے کہ جس دن ہندوستان اپنا 75واں یوم آزادی منا رہا تھا اسی روز ریاست گجرات میں گینگ ریپ اور سات افراد کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو عام معافی دے کر جیل سے رہا کر دیا گیا۔
حکومت گجرات کے اس فیصلے کو وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، یہاں تک کہ وزیر اعظم نریندر مودی سے اس بارے میں سوشل میڈیا پر کھلے سوال بھی پوچھے گئے ہیں۔
رہا کیے جانے والے یہ 11 افراد ریاست کی گودھرا جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ انھیں سنہ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی ریپ کرنے اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کا مرتکب پایا گیا تھا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بدھ کی شب اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے بلقیس بانو نے مجرمان کی رہائی کو ’ناانصافی‘ قرار دیا اور کہا کہ اس فیصلے سے ان کا نظامِ انصاف پر یقین متزلزل ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب مجھے میرے خاندان اور میری زندگی برباد کرنے والے افراد کی رہائی کی خبر ملی تو میں گنگ رہ گئی۔ مجھے ابھی تک اس کا یقین نہیں ہو رہا‘۔
بلقیس بانو نے کہا کہ ’ایک خاتون کو ملنے والے انصاف کا یہ انجام کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر اعتماد تھا، نظام پر اعتماد تھا اور میں آہستہ آہستہ اس صدمے کے ساتھ جینے کے لیے کوشاں تھی۔ ان مجرمان کی رہائی نے مجھے بےسکون کر دیا ہے اور انصاف کے نظام پر میرے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘’
انھوں نے گجرات کی ریاستی حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس فیصلے کو واپس لے اور انھیں ’ایک پرامن اور بےخوف طریقے سے زندگی گزارنے کا حق واپس دلوائے۔‘
گجرات حکومت نے ان مجرمان کی سزا معاف کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا جب دلی میں لال قلعے کی فصیل سے وزیر اعظم نریندر مودی یوم آزادی کے اپنے خطاب میں ’خواتین کی طاقت‘ اور خواتین کے احترام کی بات کر رہے تھے۔
کانگریس کے رہنما اور پارٹی کے ترجمان پون کھیڑا نے اس واقعے پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ’راج دھرم‘ نبھانے کی نصیحت یاد دلائی۔
خیال رہے کہ سنہ 2002 کے گجرات فسادات (جس میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے) کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اس وقت گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو بروقت فسادات نہ روک پانے کے لیے حکومت کی ذمہ داری نبھانے کی بات کہی تھی۔
پون کھیڑا نے گجرات حکومت کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم صرف جرم کی نوعیت پر غور کریں تو کیا ریپ اس زمرے میں نہیں آتا کہ جس کے لیے کوئی سزا کافی نہیں اور اس کے لیے سخت ترین سزا دی جائے؟ اور آج ہم نے دیکھا کہ جن لوگوں کو چھوڑ دیا گیا ان کو عزت بخشی جا رہی ہے، نوازا جا رہا ہے۔ کیا یہ امرت مہوتسو (بڑا جشن) ہے؟‘
کانگریس پارٹی نے پون کھیڑا کی پریس کانفرنس کو شیئر کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں پوچھا: ’اصلی نریندر مودی کون ہیں؟ جو لال قلعے کی فصیل سے جھوٹ پیش کرتے ہیں یا پھر وہ جو اپنی گجرات حکومت سے ریپ کے مرتکبین کو رہا کرواتے ہیں۔ یہ ملک جاننا چاہتا ہے۔‘
انھوں نے کہا پی ایم مودی کو آگے آنا چاہیے اور واضح کرنا چاہیے کہ کیا انھوں نے لال قلعے کی تقریر میں جو کچھ کہا وہ محض الفاظ تھے، جس کا کوئی مطلب نہیں تھا۔
کھیرا نے مزید کہا: ’کیا پی ایم کا مطلب وہ نہیں ہے جو وہ کہتے ہیں؟ یا یہ کہ ان کی اپنی پارٹی، ان کی حکومتوں نے ان کی بات سننا چھوڑ دیا ہے؟ یا وہ ملک کے لیے ایک بات اور اپنی پارٹی کی حکومت کے لیے دوسری بات کہتے ہیں؟‘
کمیونسٹ پارٹی (ایم ایل) اور آل انڈیا پروگریسو ویمن ایسوسی ایشن کی صدر کویتا کرشنن نے ٹویٹ کیا کہ ’سنہ 2022 کے یوم آزادی کے موقعے پر جب انڈین وزیر اعظم تقریر کر رہے تھے اور خواتین کی عزت اور ’ناری شکتی‘ (خواتین قوت) کی حمایت کی بات کر رہے تھے تو حکومت گجرات معافی کے نام پر بلقیس بانو کا اجتماعی ریپ کرنے والے 11 مجرموں کو رہا کر رہی تھی۔ کیا نریندر مودی ہمیں بتا سکتے ہیں کہ بلقیس بانو ان کی ’ناری شکتی‘ کا حصہ نہیں ہے کیونکہ وہ مسلمان ہے؟‘
دوسری جانب مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور ملک میں مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے والے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے حیدرآباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے رہائی کے عمل کی مذمت کی اور کہا: ’ملک دیکھ رہا ہے کہ بی جے پی کس طرح خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی عزت کرنے کے نام پر صرف زبانی جمع خرچ کرتی ہے۔ لیکن جب بات مسلمان خاتون کی آتی ہے تو وہ یہ سب بھی بھول جاتے ہیں۔‘
انھوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ یہ خواتین کو بااختیار بنانے کی مثال ہے۔ انھوں نے بی جے پی پر جانبدار ہونے کا الزام لگایا۔
معروف صحافی راجدیپ سر دیسائی نے دو گینگ ریپ کے واقعات کا موازنہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا: ’رات کو آنے والا خیال: یہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ ایک گینگ ریپ اور قتل (نربھیا) کا معاملہ دوسرے کیس (بلقیس بانو) سے زیادہ گھناؤنا ہے۔ ایک کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کیا جاتا ہے، دوسرے کے لیے نہیں؟ کیا قانون/معاشرے کا اجتماعی ضمیر متاثرہ اور مجرم کی شناخت پر منحصر ہے؟‘
خیال رہے کہ دہلی کی بس میں سنہ 2012 میں ایک طالبہ نربھیا کے ساتھ جب اجتماعی ریپ اور پھر بعد میں اس کی موت کا معاملہ سامنے آيا تھا تو ملک بھر سے ملزمان کے خلاف موت کی سزا کی اپیل کی گئی تھی اور بعد میں انھیں سزائے موت دی بھی گئی۔
واضح رہے کہ اجتماعی ریپ کے مجرموں کی رہائی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب مرکزی حکومت نے جون کے مہینے میں تمام ریاستوں کو قیدیوں کی سزا میں معافی کے حوالے سے ایک خط ارسال کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایک سے زیادہ قتل اور ریپ کے معاملے میں عمر قید کی سزا پانے والے قیدیوں کو معاف نہ کیا جائے۔
بہر حال مرکزی وزارت داخلہ نے 10 جون کے تمام ریاستوں کے نام اپنے خط میں کہا تھا کہ آزادی کے ’امرت مہوتسو‘ کے دوران یعنی ملک کی آزادی کی 76 ویں سالگرہ کے موقع پر بعض زمروں کے قیدیوں کی سزا کو معاف کرنے اور رہا کرنے کی تجویز ہے۔ انھیں تین مراحل میں معافی دی جائے گی۔ پہلا مرحلہ 15 اگست 2022، دوسرا مرحلہ 26 جنوری 2023 اور تیسرا مرحلہ 15 اگست 2023 ہوگا۔
ممبئی کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے سنہ 2008 میں بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے 11 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی۔ بعد میں ممبئی ہائی کورٹ نے اس سزا پر اپنی رضامندی کی مہر ثبت دی تھی۔
تمام مجرم 14 سال سے زیادہ کی سزا کاٹ چکے تھے۔ اسی بنیاد پر ان میں سے ایک ملزم رادھے شیام شاہ نے سزا میں رعایت کی درخواست کی تھی۔
گجرات کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (ہوم) راج کمار نے انگریزی کے اخبار دی انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ معافی کی درخواست جیل میں ’14 سال مکمل ہونے‘ اور دیگر عوامل جیسے ’عمر، جرم کی نوعیت، جیل میں برتاؤ وغیرہ‘ کی وجہ سے تھی۔
لیکن انسانی حقوق کے وکیل شمشاد پٹھان نے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا کہ بہت سے ایسے قیدی ہین جنھوں نے بلقیس بانو کے اجتماعی ریپ کے کیس سے بھی کم گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور وہ بغیر معافی کے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ بلقیس بانو کیس کے مجرموں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے نے نظام پر جرائم کے متاثرین کے اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 27 فروری 2002 کو گجرات میں اس وقت فسادات پھوٹ پڑے جب ’کار سیوکوں‘ (ہندو رضاکاروں) سے بھری سابرمتی ایکسپریس کے کچھ ڈبوں کو گودھرا کے قریب آگ لگ گئی جس میں 59 افراد ہلاک ہو گئے۔
گجرات کے داہود ضلع کے رندھیک پور گاؤں کی رہائشی بلقیس بانو اپنی ساڑھے تین سالہ بیٹی صالحہ اور خاندان کے دیگر 15 افراد کے ساتھ جان بچانے کے لیے گھر سے بھاگی نکلی تھیں۔ وہ اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ بھی تھیں۔ بقرعید کے دن فسادیوں نے داہود اور گردونواح میں تباہی مچائی اور کئی مکانات کو نذر آتش کر دیا۔
تین مارچ 2002 کو بلقیس کا خاندان چھپرواڑ گاؤں پہنچا اور کھیتوں میں چھپ گیا۔ اس معاملے میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 لوگوں سمیت 20-30 لوگوں نے بلقیس اور اس کے اہل خانہ پر لاٹھیوں اور زنجیروں سے حملہ کر دیا۔
بلقیس اور چار خواتین کو پہلے مارا پیٹا گیا اور پھر ان کے ساتھ ریپ کیا گیا۔ متاثرین میں بلقیس کی والدہ بھی تھیں۔ اس حملے میں رندھیک پور کے 17 مسلمانوں میں سے سات مارے گئے تھے۔ یہ سب بلقیس کے خاندان کے افراد تھے۔ ان میں بلقیس کی تین سالہ بیٹی بھی تھی۔
اس واقعے کے بعد بلقیس بانو کم از کم تین گھنٹے تک بے ہوش رہیں۔ ہوش میں آنے پر انھوں نے ایک قبائلی عورت سے کپڑے مانگے۔ اس کے بعد ان کی ملاقات ایک ہوم گارڈ سے ہوئی جو ان شکایت درج کرانے کے لیے لمکھیڑا پولیس سٹیشن لے گیا۔ وہاں کانسٹیبل سومابھائی گوری نے ان کی شکایت درج کی۔ گوری کو بعد میں مجرموں کو بچانے کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔
بلقیس کو گودھرا ریلیف کیمپ اور وہاں سے طبی معائنے کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کا معاملہ قومی انسانی حقوق کمیشن تک پہنچا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔
صحافی برکھا دت نے گذشتہ روز اس بارے میں ٹویٹ کیا: ’میں وہ رات نہیں بھول سکتی جس رات میں #بلقیس بانو سے ایک ریلیف کیمپ میں ملی تھی، ان کا بازو ایک کاسٹ میں تھا جسے ان لوگون نے توڑ دیا تھا جنھوں سب سے پہلے ان کی ماں، ان کی دو بہنوں کا ریپ کیا، ان کی تین سالہ بیٹی کو قتل کیا اور پھر باری باری حاملہ بلقیس پر حملہ کیا۔ بلقیس اور یعقوب نے اپنے نومولود کا نام اپنے مردہ بچے کے نام پر رکھا۔‘
انھون نے دوسرے ٹویٹس میں لکھا کہ ماں اور بیٹی کا خاندان کے دوسرے افراد کے سامنے ریپ کیا گیا، ان کا خون نکل رہا تھا، بلقیس حاملہ تھی، اس کی تین سال کی بیٹی صالحہ کو قتل کر دیا گیا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بہت سے لوگ انصاف کے نام پر انکاؤنٹر کو درست ٹھہراتے ہیں کیا وہاں ایسا کرنے والوں کے لیے عمر قید کم سزا نہیں؟‘
بلقیس بانو کے شوہر یعقوب رسول نے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا کہ انھیں یہ نہیں معلوم ہے کہ حکومت گجرات نے ان 11 لوگوں کو کیونکر رہا کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم ہر دن اپنی بیٹی سیمت اس واقعے میں مرنے والوں کو یاد کرتے ہیں۔ ہم ان کی رہائی پر کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ہم صرف مرنے والوں کی روح اور فساد میں مرنے والوں کے لواحقین کے سکون کے لیے دعا کرتے ہیں۔‘