مصنف سلمان رشدی، جنھیں امریکی ریاست نیویارک میں ایک تقریب کے دوران سٹیج پر آ کر ایک حملہ آور نے چاقو کے وار کا نشانہ بنایا ہے، کو ان کے پانچ دہائیوں پر محیط ادبی کیرئیر کے باعث متعدد بار جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔
برطانوی مصنف و ناول نگار کی کئی کتابیں بے حد کامیاب رہی ہیں، ان کے دوسرے ناول مڈ نائٹ چلڈرن نے 1981 میں بکر پرائز جیتا تھا۔
لیکن ان کا چوتھا ناول ‘شیطانی آیات (سیٹانک ورسز) جو سنہ 1988 میں شائع ہوا ان کا سب سے متنازع ناول بن گیا اور جس پر بین الاقوامی سطح پر ایسی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
75 سالہ رشدی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، اور وہ اس ناول کی اشاعت کے بعد روپوش ہونے پر مجبور ہو گئے اور برطانوی حکومت نے مصنف کو پولیس حفاظت میں رکھا تھا۔
مصنف سلمان رشدی، جنھیں امریکی ریاست نیویارک میں ایک تقریب کے دوران سٹیج پر آ کر ایک حملہ آور نے چاقو کے وار کا نشانہ بنایا ہے، کو ان کے پانچ دہائیوں پر محیط ادبی کیرئیر کے باعث متعدد بار جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔
برطانوی مصنف و ناول نگار کی کئی کتابیں بے حد کامیاب رہی ہیں، ان کے دوسرے ناول مڈ نائٹ چلڈرن نے 1981 میں بکر پرائز جیتا تھا۔
لیکن ان کا چوتھا ناول ‘شیطانی آیات (سیٹانک ورسز) جو سنہ 1988 میں شائع ہوا ان کا سب سے متنازع ناول بن گیا اور جس پر بین الاقوامی سطح پر ایسی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
75 سالہ رشدی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، اور وہ اس ناول کی اشاعت کے بعد روپوش ہونے پر مجبور ہو گئے اور برطانوی حکومت نے مصنف کو پولیس حفاظت میں رکھا تھا۔
وہ برطانوی شہری بن گئے اور انھوں نے اپنا مسلم عقیدہ تبدیل کر لیا۔ انھوں نے بطور ایک اداکار مختصر وقت کے لیے کام کیا۔ وہ کیمبرج فوٹ لائٹس میں کام کر چکے ہیں۔ پھر انھوں نے ناول لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک ایڈورٹائزنگ کاپی رائٹر کے طور پر بھی کام کیا۔
ان کی پہلی لکھی گئی کتاب گریمس نے اشاعت کے بعد بڑی کامیابی حاصل نہیں کی، لیکن کچھ ناقدین نے انھیں ایک اہم صلاحیت کے حامل مصنف قرار دیا تھا۔
رشدی کو اپنی دوسری کتاب مڈ نائٹ چلڈرن لکھنے میں پانچ سال لگے، اس کتاب نے سنہ 1981 کا بکر پرائز جیتا تھا۔ اس کتاب کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا اور اس کی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں تھیں۔
جہاں ان کی کتاب مڈ نائٹ چلڈرن انڈیا کے بارے میں تھی، وہیں رشدی کا تیسرا ناول شیم – جو 1983 میں ریلیز ہوا۔ چار سال بعد، رشدی نے دی جیگوار سمائل نامی ناول لکھا، جو نکاراگوا میں ایک سفر نامہ تھا۔
سنہ 1988 میں ان کی وہ کتاب جس نے ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ‘دی سیٹانک ورسز (شیطانی آیات) شائع ہوئی۔ اس کتاب کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے مذہبی توہین آمیز قرار دیا۔
اس کتاب پر سب سے پہلے انڈیا نے پابندی لگائی تھی۔ پاکستان نے بھی مختلف دیگر مسلم ممالک اور جنوبی افریقہ کی طرح اس پر پابندی عائد کر دی۔
اس ناول کو کئی حلقوں میں سراہا گیا اور اس نے ناول نگاری میں وائٹ بریڈ پرائز جیتا۔ لیکن کتاب پر ردعمل بڑھتا گیا، اور دو ماہ بعد، دنیا کے مختلف ممالک میں سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں نے زور پکڑ لیا۔
چند مسلم ممالک نے اسے مذہب اسلام کی توہین قرار دیا۔ انھوں نے کتاب میں موجود مواد پر اعتراض کیا۔
جنوری 1989 میں، بریڈ فورڈ میں مسلمانوں نے رسمی طور پر کتاب کی ایک کاپی جلا دی تھی اور نیوز ایجنٹ ادارے ڈبلیو ایچ ایسمتھ کو وہاں اس کتاب کو رکھنے سے منع کیا تھا۔ تاہم سلمان رشدی نے توہین مذہب کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔
اس برس فروری میں، برصغیر میں رشدی مخالف فسادات میں کئی افراد مارے گئے، تہران میں برطانوی سفارت خانے پر پتھراؤ کیا گیا، اور مصنف کے سر پر 30 لاکھ ڈالر کا انعام رکھا گیا۔
دریں اثنا، برطانیہ میں، کچھ مسلم رہنماؤں نے اعتدال پسندی پر زور دیا، جبکہ دیگر نے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ کی حمایت کی۔
امریکہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک نے سلمان رشدی کو دی جانے والی موت کی دھمکی کی مذمت کی تھی۔
سلمان رشدی اس وقت تک پولیس کے پہرے میں اپنی بیوی کے ساتھ روپوش رہے، انھوں نے اپنی کتاب کے ذریعے مسلمانوں کو ہونے والی تکلیف پر گہرے افسوس کا اظہار بھی کیا تھا لیکن ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی نے مصنف کی موت کے لیے اپنے فتوی کو قائم رکھا۔
وائکنگ پینگوئن کے لندن کے دفاتر سے پبلشرز کو پکڑ لیا گیا اور نیویارک کے دفتر میں عملے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔
لیکن اس سب کے باوجود یہ کتاب بحر اوقیانوس کے دونوں کناروں پر واقع ممالک میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی تھی۔
مسلم ممالک کے جانب سے اس کتاب کی اشاعت پر شدید ردعمل کے نتیجے میں ای ای سی ممالک نے اس کتاب کی حمایت کی اور ان مظاہروں کے خلاف تمام ممالک نے عارضی طور پر تہران سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔
لیکن مصنف سلمان رشدی وہ واحد شخص نہیں تھے جنھیں کتاب کے مواد پر دھمکیاں دی گئی تھیں۔
اس کتاب ‘شیطانی آیات کا جاپانی مترجم جولائی 1991 میں ٹوکیو کے شمال مشرق میں ایک یونیورسٹی میں مرا ہوا پایا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ مترجم، ہیتوشی ایگاراشی، جو تقابلی ثقافت کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کرتا تھا، کو کئی بار چاقو مارا گیا تھا اور سوکوبا یونیورسٹی میں ان کے دفتر کے باہر برآمدے میں پھینک دیا گیا تھا۔
اس ماہ کے شروع میں اطالوی مترجم ایٹور کیپری اولو پر بھی ان کے اپارٹمنٹ میں چاقو کے وار کیے گئے تھے تاہم وہ اس حملے میں زندہ بچ گئے تھے۔
سنہ 1998 میں رشدی کے خلاف سزائے موت کو ایرانی حکومت کی باضابطہ حمایت حاصل ہونے سے روک دیا گیا۔
رشدی کی بعض کی کتابوں میں بچوں کے لیے ایک ناول، ہارون اینڈ دی سی آف سٹوریز (1990)، مضامین کی ایک کتاب، امیجنری ہوم لینڈز (1991)، اور ناول ایسٹ، ویسٹ (1994)، دی مورز لاسٹ سائی (1995)، دی گراؤنڈ بنیتھ ہر فیٹ (1999)، اور فیوری (2001) شامل ہیں۔
وہ لندن 2003 میں اپنے ناول مڈ نائٹ چلڈرن کی سٹیج کے لیے ماخوذ کردہ پرفارمنس میں بھی شامل رہے۔
پچھلی دو دہائیوں میں اس نے شالیمار دی کلاؤن، دی اینچینٹریس آف فلورنس، ٹو یئرز ایٹ منتھز اینڈ ٹوئنٹی ایٹ نائٹس، دی گولڈن ہاؤس اور کوئچوٹ نامی ناول شائع کیے ہیں۔
سلمان رشدی نے چار بار شادی کی اور ان کے دو بچے ہیں۔ وہ اب امریکہ میں رہتے ہیں، اور ادب کے شعبے میں ان کی خدمات کے لیے 2007 میں انھیں نائٹ کا خطاب دیا گیا۔
انھوں نے سنہ 2012 میں اپنی متنازع کتاب ‘شیطانی آیات’ (دی سٹانک ورسرز) کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات کے متعلق ایک یادداشت لکھی تھی۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام