نئی دہلی(پریس ریلیز)۔ ساہتیہ اکادمی کے زیر اہتمام چھ روزہ ’جشن ادب‘ سہ روزہ قومی سمینار بعنوان ’رزمیوں کی یادیں، ہندوستان کی تحریک آزادی اور ملک کی تعمیر‘ کا افتتاح ہندی کے ممتاز ادیب و فیلو ساہتیہ اکادمی پروفیسر وشوناتھ پرساد تیواری نے کیا۔ کلیدی خطبہ ممتاز سماجی تھیوریسٹ اور نقاد آشیش نندی نے دیا۔ سمینار کی صدارت ساہتیہ اکادمی کے صدر مادھو کوشک نے کی اور نائب صدر کمود شرما نے اظہار تشکر کیا۔ہماری دو رزمیوں رامائن اور مہابھارت بھی ہماری آزادی کے متاثر کن عناصر پر مشتمل ہیں۔ جہاں مہاتما گاندھی رامائن (تلسی کے رام چرت مانس) سے تحریک لیتے ہیں، وہاں بال گنگادھر تلک، لالہ لاجپت رائے اور وپن چندر پال گیتا سے تحریک لے رہے ہیں جو مہابھارت کا ایک حصہ ہے۔ ہندی کے نامور ادیب اور ساہتیہ اکادمی کے فیلو وشوناتھ پرساد تیواری نے یہ باتیں اس قومی سمینار کے افتتاحی خطاب میں کہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ستیہ گرہ اور سوراج جو گاندھی کے سب سے بڑے ہتھیار تھے، وہ تلسی داس کے رام چرت مانس تک ہی اس تک پہنچتے ہیں۔ کلیدی خطبہ دیتے ہوئے، ممتاز سماجی تھیوریسٹ اور نقاد آشیش نندی نے کہا کہ معاشرے کی اندرونی حسیت صرف ہمارے افسانوں میں محفوظ ہے۔ ہمارے افسانے ہمیں زندگی کے تئیں مزید تنوع کے ساتھ سوچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ساہتیہ اکادمی کے صدر مادھو کوشک نے صدارتی خطبے میں کہا کہ ان دو رزمیوں میں ہماری نسلی یادیں محفوظ ہیں۔ اختتامی بیان دیتے ہوئے ساہتیہ اکادمی کے نائب صدر کمود شرما نے کہا کہ ہندوستان کی مرکزیت ان دو مہاکاویوں میں بسی ہوئی ہے۔ سیمینار کے دیگر دو سیشن کی صدارت بالترتیب ہریش ترویدی اور ایس آر بھٹ نے کی۔
آج دوسرے پروگراموں میں ’ڈرامہ تحریر پر مباحثہ‘ کا افتتاح نامور اداکار موہن آگاشے نے کیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ڈرامہ لکھنا اور پیش کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ الفاظ کے پورے سفر کا خاکہ تیار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب الفاظ ہمارے ساتھ مسلسل رہتے ہیں اور کوئی اور طے کرتا ہے کہ ہم نے ان سے کتنا اور کیسا تعلق رکھنا ہے۔ اپنا تجربہ بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وجے تندولکر کا لکھا ہوا ڈرامہ ’گھسیرام کوتوال‘ صرف 39 صفحات کا ہے۔ لیکن مصنف نے اسے پیش کرنے کے لیے تبصروں کی صورت میں اتنی تجاویز دی ہیں کہ ہر کسی کو اسے پیش کرنے کے لیے ایک نیا نقطۂ نظر اور فہم ملتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اچھا لکھنے، اچھی طرح دیکھنے اور اچھی طرح سے پیش کرنے کے لیے تمام اعضا کا توازن ضروری ہے۔ اس پروگرام کے دیگر اجلاس میں دیاپرکاش سنہا اور ٹی ایم ابراہم، چندن سین، کے وائی نارائن سوامی، ابھیرام بھڈکمکر، دیوان سنگھ بجیلی، ڈی سرینواس نے اپنے خیالات پیش کئے۔ LGBTQ مصنفین کانفرنس اور ’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل‘ کے موضوع پر آل انڈیا شعری نشست بھی منعقد کیا گیا جس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت ہندی کے مشہور شاعر اور اسکالر لیلادھر جگوڑی نے کی اور اس میں کئی ہندوستانی زبانوں کے اہم شاعروں نے شرکت کی۔ گزشتہ روز سے جاری قبائلی مصنفین کی کانفرنس بھی اختتام پذیر ہوگئی، جس میں تقریباً ہندستان کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی 30 زبانوں کے ادیبوں نے شرکت کی۔ ’ناری چیتنا‘ پروگرام ونیتا اگروال کی صدارت میں اختتام پذیر ہوا، جس میں آٹھ خواتین تخلیق کاروں نے حصہ لیا۔ معروف میتھلی اور ہندی ادیبہ اوشاکرن خان نے آج ’ادیب کے ساتھ ملاقات‘ پروگرام کے تحت اپنے تجربات اور تخلیقات پیش کیے۔ ثقافتی پروگرام کے تحت غلام وارث نظامی (نظامی برادران) نے قوالی پیش کی جسے سامعین نے خوب سراہا۔