نئی دہلی( ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک):دہلی کی ایک عدالت نے ایک شخص کے ذریعہ آگرہ کے ایک شاہی کنبہ کا جانشیں ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے قطب مینار کی ملکیت کا مطالبہ کرنے والی مداخلت عرضی کو خارج کر دیا۔ قومی آواز ڈاٹ کام کی خبر کے مطابق سماعت کے دوران وکیل امیتا سچدیوا نے دلیل دی کہ کنورمہندر دھوج پرساد سنگھ کی عرضی کو سنگین سزا کے ساتھ خارج کر دیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایک ’ایڈورٹائزنگ ڈرامہ‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔
دہلی کورٹ کے ایڈیشنل ضلع جج دنیش کمار نے کنور مہندر دھوج پرساد سنگھ کے ذریعہ داخل اس عرضی کو خارج کیا۔ عرضی گزار نے آگرہ کے مشترکہ علاقہ کے جانشیں ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور میرٹھ سے آگرہ تک کے علاقوں پر اپنے حق کا مطالبہ کیا تھا۔
عرضی میں الزام لگایا گیا تھا کہ 1198 میں غلام سلطنت کے بادشاہ قطب الدین ایبک کی حکومت میں 27 ہندو اور جین مندروں کو ناپاک کر منہدم کیا گیا تھا، جنھوں نے ان مندروں کی جگہ پر مذکورہ مسجد کی تعمیر کی تھی۔ غلام سلطنت کے بادشاہ کی کمان کے تحت مندروں کو منہدم، ناپاک اور مندہم کر دیا گیا تھا جنھوں نے اسی جگہ پر کچھ تعمیرات کیں اور عرضی کے مطابق اسے قوت اسلام مسجد کا نام دیا گیا۔
کنور مہندر دھوج پرساد سنگھ کی عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عرضی گزار بیسوان فیملی سے ہے اور راجہ روہنی رمن دھوج پرساد سنگھ کا جانشیں اور راجہ نند رام کی نسل سے ہے، جن کا انتقال 1695 میں ہوا تھا۔