کویت سٹی: کویت نے سویڈش زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ والے ایک لاکھ نسخوں کی طباعت اور اشاعت کا اعلان کردیا۔ کویتی وزیر اعظم کا یہ فیصلہ اسلام کی رواداری اور تمام لوگوں کے درمیان اسلامی اقدار اور بقائے باہمی کو پھیلانے کے مقصد کے تحت کیا گیا ہے۔شیخ احمد نواف الاحمد الصباح نے کیئر اتھارٹی کو قرآن پاک کی طباعت اور اشاعت کا کام سونپ دیا تاکہ ان نسخوں کو سویڈن میں تقسیم کیا جا سکے۔ واضح رہے 28 جون کو عید الاضحی کے پہلے دن سویڈن میں ایک عراقی شہری نے( معاذ اللہ) قرآن کریم کے نسخے کی بے حرمتی کی تھی۔ اس گھناؤنی حرکت پر دنیا بھر میں مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا اور احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔
ادھرنیویارک سے خبر ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کو جلانے اور مذہبی منافرت سے متعلق ایک متنازعہ مسودہ پراقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارہ میں بحث متوقع ہے۔ تاہم مغربی ممالک کو اس پر پاکستان کا تیار کردہ مسودہ پسند نہیں ہے۔انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ‘ہیومن رائٹس کونسل’ (ایچ آر سی) میں 11 جولائی منگل کے روز مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے بعض صفحات جلانے کے پس منظر میں مذہبی منافرت سے متعلق ایک متنازعہ مسودہ پر بحث کی توقع ہے۔ تاہم بعض مغربی ممالک مسودہ کے متن سے خوش نہیں ہیں۔ستاون ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے اس سلسلے میں پاکستان نے قرارداد کا جو مسودہ پیش کیا ہے، اس میں سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہولم میں قرآن کے صفحات کو نذر آتش کرنے کے واقعے کو ”جارحانہ، توہین آمیز اور اشتعال انگیزی کا ایسا واضح فعل” قرار دیا گیا ہے، جو نہ صرف نفرت کو ہوا دیتا ہے، بلکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔اس مسودہ میں ”بعض یورپی ممالک اور دیگر ملکوں میں قرآن کو سر عام جلانے کی بار بار کی حرکتوں ” کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ تاہم مغربی سفارت کاروں نے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی ہے کہ اس قرارداد کے مسودے میں انسانی حقوق کے بجائے مذہبی علامتوں کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔ایک مغربی سفارت کار نے اس مسودے کے بارے میں خبر رساں ادارہ رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہمیں اس کا متن پسند نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”انسانی حقوق کا تعلق افراد سے ہونا چاہیے، مذاہب سے نہیں۔” او آئی سی نے یہ قرارداد ایک ایسے وقت پیش کی ہے جب اس گروپ کا ایچ آر سی پر غیر معمولی اثر و رسوخ ہے اور اس سے اس تنظیم اور مغربی ریاستوں کے درمیان مزید کشیدگی بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔47 رکنی ہیومن رائٹس کونسل میں فی الوقت او آئی سی کے 19 ممالک شامل ہیں اور چین جیسے بعض دیگر ممالک نے بھی اس قرارداد کے مسودے کی حمایت کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان او آئی سی کے تمام ممالک کو اپنے ساتھ کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے یا نہیں۔واضح رہے کہ 2021 میں یمن میں جنگی جرائم کی تحقیقات کو ختم کرنے کے لیے سعودی عرب نے کوشش کی تھی اور اسے ان کوششوں میں کامیابی بھی ملی تھی۔جنیوا میں قائم یونیورسل رائٹس گروپ کے ڈائریکٹر مارک لیمن کا کہنا ہے کہ ”اگر قرارداد منظور ہو جاتی ہے، جیسا کہ امکان بھی نظر آتا ہے، تو اس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملے گی کہ کونسل پلٹ رہی ہے۔ اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا کہ آزادی اظہار اور نفرت انگیز تقریر کے درمیان کی حد، اور یہ کیا مذاہب کے بھی حقوق ہیں، جیسی اہم بحثوں کے حوالے سے مغربی ممالک اپنی طاقت کھو رہے ہیں۔”ان کا مزید کہنا تھا کہ ”اس سے کونسل غصے سے بھی پھٹ سکتی ہے۔”ادھر یورپی یونین نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر پہلے اتفاق رائے پیدا کر لیں۔ یورپی یونین کے ایک سفارت کار نے گزشتہ ہفتے مذاکرات کے دوران کہا تھا، ”اقوام متحدہ میں کئی دہائیوں سے مذاہب کی توہین ایک مشکل موضوع رہا ہے۔”ان کا مزید کہنا تھا، ”یہ سوال کہ آزادی اظہار اور نفرت پر اکسانے کے درمیان لکیر کہاں کھینچی جائے، واقعی ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔”