مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولاناعمرین محفوظ رحمانی کے بیانات گردش میں،مصالحت کیلئے پھلواری شریف کی جانب سے کوئی پیش قدمی نہیں
نئی دہلی:امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ اور جھارکھنڈکو تقسیم سے بچانے کی کوششوں ہنوز ناکام بتائی جارہی ہے،اس درمیان ہندوستان ایکسپریس کورانچی سے موصول ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ علم بغاوت بلند کرنے والی امارت کی جھارکھنڈ یونٹ تادم تحریر اپنی باغیانہ روش پر قائم ہےاورافہام و تفہیم کی کسی طرح کی کوشش بھی نہیں ہورہی ہے۔اس درمیان جھارکھنڈ کی یونٹ کی بغاوت کوکچلنے میں ناکام پھلواری شریف کا مرکزی دفتر بڑی اورعبقری بتائی جانے والی شخصیات کی تائید حاصل کرنے میں مصروف ہے۔خاص بات یہ بھی ہے کہ امارت شرعیہ کے پھلواری شریف کے دفترمیں عملاًایسی کوئی سرگرمی نہیں دیکھی جارہی ہے،جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ افہام و تفہیم کی کوئی سنجیدہ کوشش ہورہی ہے۔جانکار ذرائع کہہ رہے ہیں کہ جھارکھنڈ کے” خود ساختہ”امیر شریعت سے رابطہ کرنے ، انہیں ساتھ لے کر چلنے اور ریاست کے نا مطمئن ارکان شوریٰ کا اعتماد حاصل کرنے کی کسی طرح کی عملی کوشش نہیں کی جارہی ہے،جس کانتیجہ یہ ہے کہ دونوں ہی گروپ اپنے اپنے موقف پر قائم ہے اور یوں امارت شرعیہ کو متحد اورت منظم رکھ پانا مشکل دکھائی دے رہاہے۔باخبر ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مولانا نذر توحید سے امیر شریعت کا آگے بڑھ کر رابطہ کرنا اور ان کے تحفظات کو دور کرناکوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں تھالیکن امیر شریعت یا پھلواری شریف کے دفتر نے اس ضمن میں کسی طرح کی پیش قدمی ظاہر نہیں کی اور یوں مصالحت کا خواب،خواب ہی بنا ہوا ہے۔
اس درمیان ایسی خبریں ہیں کہ امارت شرعیہ کو ایک طرح سے صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی حمایت مل گئی ہے۔اس ضمن میں پھلواری شریف سے موصولہ پریس ریلیز میں خالد سیف اللہ رحمانی کے حوالے سے یہ بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اس امر سے اتفاق کیا ہے کہ”اجتماعی نظام کو وجود میں لانا اور اس کو قائم رکھنا مسلمانوں کا ایک اہم فریضہ ہے؛ اس لئے جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں وہاں بھی فقہاء نے محدود مقاصد کے لئے ہی سہی نظام امارت کو قائم کرنے کی ہدایت دی ہے، اور اس سلسلے میں دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے، ایک نصب قاضی یعنی مسلمانوں کے آپسی اختلاف کو حل کرنے کے لئے دارالقضاء کا قیام، دوسرے جمعہ وعیدین کا قیام، جس کے لئے قدیم فقہاء نے امیر و سلطان کی اجازت کو لازم قرار دیا تھا، مگر ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے ختم ہونے کے بعد علماء نے فتوی دیا کہ جمعہ کے قیام کے لئے مسجد کی مقامی کمیٹی اور اس کی اجازت کافی ہے؛ تاہم قاضی کا مقرر کرنا امیرکے ذریعہ ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ دینی تعلیم، عصری تعلیم ٹیکنیکل تعلیم،خدمت خلق کا کام، مسلمانوں کے دین وایمان اور جان و مال کی حفاظت کی کوشش وغیرہ ایسے امور ہیں، جن کو کوئی فرد یا افراد کا ایک مجموعہ یامسلمانوں کا بنایا ہوا ادارہ یا کوئی بھی تنظیم انجام دے سکتی ہے، ان کاموں کے لئے نہ امارت کا نظام ضروری ہے اور نہ امیر کی اجازت؛ البتہ بہت اہم بات یہ ہے کہ امارت کے نظام کی وجہ سے مسلمانوں کی اجتماعیت برقرار رہتی ہے، اور اتحاد واجتماعیت ہی بہت بڑی طاقت ہے”۔
امارت کی ریلیز کے مطابق خالد سیف اللہ رحمانی نے کہاہے کہ امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ کے رکن شوری اور رکن مجلس ارباب حل و عقد، نیز ملت کے ایک بہی خواہ کی حیثیت سے جھارکھنڈ کے علماء وار باب فکر و نظر اور ذمہ دار شخصیتوں سے درمندانہ اپیل کی کہ وہ ان تینوں ریاستوں کی متحدہ امارت کو قائم رکھیں، جس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے، اور ہرگز اس میں رخنہ نہ پڑنے دیں، اگر امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ سے کوئی اختلاف ہو تو وہاں کے ذمہ داروں کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش کریں۔پریس ریلیز کے مطابق مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے موجودہ امیر اور ذمہ داران ضرور ایسی باتوں کو توجہ سے سنیں گے، اگر غلط فہمیاں ہوں گی تو دور بھی کریں گے اور کوئی رائے قابل توجہ اور لائق عمل ہوگی تو اس کو رو بہ عمل بھی لائیں گے۔ بہر حال کسی بھی صورت میں تفرقہ پیدا نہ کریں مل جل کر امت کے کارواں کو آگے بڑھائیں، الگ سے امارت قائم کرنے کے بجائے جو لوگ تعلیم، سماجی خدمت اور اصلاحی میدان میں کوئی کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں تو وہ اپنے طور پر انفرادی یا تنظیمی شکل میں اس کو انجام دیں، اس کےلئے الگ سے امارت قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، موجودہ حالات میں جب کہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ اتحاد و اتفاق کی اور اختلاف و انتشار سے بچنے کی ضرورت ہے، ہمیں ایسی باتوں سے ضرور بچنا چاہئے؛ ورنہ یہ بڑی بدبختی کی بات ہوگی، اللہ تعالیٰ ہمیں اختلاف وانتشار سے محفوظ رکھے۔
دوسری جانب محمد عمرین محفوظ رحمانی کا بھی اس سلسلے میں موقف سامنے آیا ہے،جس میں انہوں نے کہا ہے کہ "ملت اسلامیہ ہندیہ اپنے تاریخ کے نازک دور سے گزر رہی ہے، مسلمانان ہند طرح طرح کے خطرات، آزمائشوں اور سازشوں کے گھیرے میں ہیں، ایسے وقت میں مسلمانوں کا آپسی اتحاد نہایت ضروری ہے اور ہمارے اکابر واسلاف نے جن جماعتوں اور اداروں کو خون جگر سے سینچا ہے ان کی شیرازہ بندی، حفاظت اور استحکام بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اتحاد اور اجتماعیت سے بہت سارے مسائل حل ہوتے ہیں، امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھارکھنڈ ہمارے اکابر اور بزرگوں کا سینچا ہوا باغ ہے اور اس عظیم ادارے کی خدمات نا قابل فراموش ہیں”۔ محمد عمرین محفوظ رحمانی کے مطابق”حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد نوراللہ مرقدہ نے جس خلوص و للہیت اور دینی جذبے سے اس ادارے کو قائم فرمایا تھا اس کی برکت ہے کہ یہ ادارہ اپنی زندگی کے سو سال پورے کر چکا ہے اور اب بھی اس کی خدمات کا سلسلہ جاری اور دائرہ وسیع ہے۔ امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مدظلہ آٹھویں امیر شریعت کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں، اس خبر سے رنج ہوا کہ جھارکھنڈ کی امارت کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے، امارت کے قیام کا مقصد ہی اجتماعیت قائم کرنا ہے، ایسے میں انفرادیت اور علیحدگی کی وجہ سے مقصد فوت ہو جائے گا۔ ضرورت ہے کہ امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھارکھنڈ کو متحد رکھا جائے اور مل جل کر اس کے کاموں کو آگے بڑھایا جائے۔ جھارکھنڈ کے ارباب دین و دانش کو اس سلسلے میں پیش رفت کرنی چاہیے اور اتحاد کو اولیت دینی چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو”۔