عراق کے شیعہ عالم دین کے اعلان کے ساتھ ہی بغداد میں جھڑپوں کا دور شروع،15 افرادہلاک
بغداد( ایجنسیاں): عراق کے با اثر شیعہ عالم اور لیڈر مقتدى الصدر نے پیر کے روزاعلان کیا ہے کہ وہ نہ ختم ہونے والے سیاسی جمود کو دیکھتے ہوئے سیاست سے دستبردار ہو رہے ہیں اوراپنے اداروں کو بند کر رہے ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ ملک میں موجود عدم استحکام میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔ وائس آف امریکہ کی خبر کے مطابق انہوں نے ٹوئٹر پراپنے بیان میں کہا کہ ” یہ میرا حتمی فیصلہ ہے” انہوں نے اپنے ساتھی شیعہ لیڈروں پر بھی تنقید کی کہ انہوں نے ان کی تجویز کردہ اصلاحات پرتوجہ نہیں دی اوراس سلسلے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کہ وہ اپنے کن دفاتر کو بند کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے یہ کہا کہ ان کے مذہبی اور ثقافتی ادارے کھلے رہیں گے۔
مقتدیٰ الصدر کے اعلان کے ساتھ ہی عراق میں تشدد کاسلسلہ شروع ہوگیا ہے اور میڈیا رپورٹ کے مطابق تشدد آمیز واقعات میں 15 افراد ہلاک اور 270 زخمی ہوگئے ہیں۔ مقتدیٰ الصدر کے وفادارنوجوان ان کے اعلان پر احتجاج کرتے ہوئے بغداد کی سڑکوں پر نکل آئے تھے اوران کی تہران کے حمایت یافتہ گروہوں کے حامیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔انھوں نے بغداد کے انتہائی سکیورٹی والے علاقے گرین زون کے باہر ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ مقامی صحافیوں نے بتایا کہ بغداد کے وسطی علاقے میں فائرنگ کی بازگشت سنائی دی ہے اورنامعلوم مقام سے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی ہے لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ یہ فائرنگ کس نے کی ہے۔پولیس اور طبی کارکنوں نے جھڑپوں میں قبل ازیں فائرنگ سے مقتدیٰ الصدر کے آٹھ حامیوں کی ہلاکت اور 85 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔اس سے پہلے انھوں نے دوافراد کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی۔
بعض صحافیوں نے بتایا ہے کہ بغداد کے گرین زون میں اس وقت براہ راست فائرنگ شروع ہوگئی جب مقتدیٰ الصدر کے سیکڑوں حامیوں نے قلعہ بند گرین زون میں واقع سرکاری عمارت ری پبلکن پیلس پر دھاوا بول دیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ مقتدیٰ الصدر کے حریف شیعہ بلاک یعنی ایران نواز رابطہ فریم ورک کے حامیوں نے پہلے فائرنگ کی تھی۔سکیورٹی فورسز نے گرین زون کے داخلی دروازے پر صدری تحریک کے حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے اشک آورگیس کے گولے داغے ہیں اور اس کے بعد وہ سرکاری محل کو خالی کرنے پرمجبور ہوگئے۔
مقتدیٰ الصدر نے قبل ازیں سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔اس کے ردعمل میں ان کے ناراض پیروکار ری پبلکن محل میں داخل ہوگئے۔ان کے حامیوں نے سیمنٹ کی رکاوٹوں کو رسیوں سے نیچے اتارا اور محل کے دروازے توڑ دیے۔بہت سے لوگ محل کے شاندارسیلونوں اور سنگ مرمر والے ہالوں میں داخل ہوگئے۔یہ محل عراقی سربراہان مملکت اورغیرملکی معززین کے درمیان ملاقاتوں کی ایک اہم جگہ ہے۔
سہ پہر کے وقت سکیورٹی فورسز نے سرکاری محل کے احاطے سے صدری تحریک کے حامیوں کو نکالنے کے لیے آنسو گیس کے کنستراور اور شور پیدا کرنے والے دستی گولے داغے تھے۔
آج کے تشدد آمیز واقعات کے بعد ایک مرتبہ پھرحالات ابتر ہونے کاخدشہ پیدا ہو گیا ہے جبکہ جنگ زدہ ملک پہلے ہی برسوں سے بدترین سیاسی بحران میں گھرا ہوا ہے۔
عراق کی فوج نے دارالحکومت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر قابوپانے اورجھڑپوں کے امکانات کو ختم کرنے کی امید میں شہر بھر میں مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے سے کرفیو کا اعلان کیا ہے۔فوج نے ایک بیان میں مقتدیٰ الصدر کے حامیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انتہائی سکیورٹی والے سرکاری علاقے سے فوری طور پر دستبردارہو جائیں اور ’’جھڑپوں یا عراقی خون کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے‘‘ ضبط وتحمل کا مظاہرہ کریں۔
مقتدى الصدر اسسے قبل بھی سیاست یا حکومت سے دستبرداری اوراپنی وفادارملیشیاؤں کو ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، لیکن انہوں نے ریاستی اداروں پراپنا وسیع کنٹرول برقرار رکھا۔ اوراب بھی ہزاروں ارکان پرمشتمل ایک نیم فوجی گروپ ان کےپاس موجود ہے۔ وہ اکثراسی طرح کے اعلانات کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں واپس آ تے رہے ہیں، مگرعراق میں موجودہ سیاسی تعطل کودور کرنا پچھلے ادوار کے مقابلے میں مشکل دکھائی دیتا ہے۔