سری نگر،23اپریل(یو این آئی)جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے منگل کو کہا کہ سال 2014سے 2024تک 10سال ہوگئے لیکن پی ڈی پی اور بھاجپا کے رشتے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس بات کا انکشاف کل پیر پنچال کے ایک بی جے پی لیڈر نے اُس وقت صاف صاف الفاظ میں کیا جب موصوف نے پارلیمانی انتخابات میں محبوبہ مفتی کو حمایت دینے کا اعلان کیا۔ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے اننت ناگ راجوری سے پارٹی اُمیدوار میاں الطاف احمد کے حق میں الگ الگ چناﺅی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
عمر عبداللہ نے کہاکہ ”جھوٹ کو زیارہ دیر چھپایا نہیں جاسکتا، یہ جو پی ڈی پی اُمیدوار ہے ، جگہ جگہ جاکر نیشنل کانفرنس کو نشانہ بنا رہی ہے، میں اپنی جگہ یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ہمارا اصلی دشمن بی جے پی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر جموں وکشمیر میں تباہی لانے والی جماعت بی جے پی ہے تو محبوبہ جی بھاجپا کو زیادہ نشانہ کیوں نہیں بنا رہی ہے اور صرف نیشنل کانفرنس کو ہی نشانہ کیوں بنا رہی ہیں؟ اگرچہ ہمیں اندر اندر سے معلوم تھا لیکن کل یہ بات اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب بی جے پی کے سینئر لیڈر مشتاق بخاری نے کھلم کھلا کہہ دیا کہ بی جے پی محبوبہ مفتی کو مدد کررہی ہے، میں اُن کا شکر گزار ہوں انہوں نے حقیقت عوام کے سامنے لائی۔این سی نائب صدر نے کہاکہ آج بالکل 2014کے حالات دہرائے جارہے ہیں، پی ڈی پی والوں نے اُس وقت بھی یہاں کے عوام سے بھاجپا کیخلاف ووٹ مانگے اور پھر بھاجپا کیساتھ ہاتھ ملایا۔
انہوں نے کہا کہ الطاف بخاری جب پی ڈی پی سے الگ ہوئے تو انہوں نے اس بات کا خلاصہ کیا کہ پی ڈی پی اور بھاجپا کا اتحاد 2014الیکشن نتائج کے بعد نہیں بلکہ مفتی محمد سعید اور نریندر مودی کے درمیان الیکشن سے پہلے ہی معاہدہ ہوا تھا، تب سے 10سال ہوگئے، 2024میں بھی پی ڈی پی اور بی جے پی کا رشتہ برابر ہے لیکن کل تک یہ درپردہ تھا اور آج عیاں ہوگیاہے۔ “
سابق وزیر اعلیٰ نے کہاکہ تمام تبادہی اور بربادی کے بعد،ہماری شناخت، پہنچان، عزت اور وجود تہس نہس کرنے کے بعد بھی اگر پی ڈی پی بھاجپا کی مدد کررہی ہے تو کشمیری عوام کیلئے اس سے بدقسمتی کی کیا بات ہوسکتی ہے؟انہوں نے کہا کہ آج کتنے ہمارے نوجوان جیلوں اور بیرونِ ریاست اسیر ہیں، کتنے نوجوانوں کے ماں باپ کے پاس کرایہ نہیں کہ وہ اپنے لخت جگروں کیساتھ ملاقات کرنے کیلئے جائیں۔
یہ سب کچھ بھاجپا نے یہاں کیا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ 5 اگست 2019 کے بعد یہاں تبدیلی آئی ۔ تبدیلی کیوں نہیں آئیگی جب آپ نے تمام جیلوں کو کشمیری نوجوانوں سے بھر دیاہے۔ لیکن انشاءاللہ پارلیمانی الیکشن کے بعد اسمبلی انتخابات کا انعقاد ہو اور اگر اس میں نیشنل کانفرنس کی حکومت آئی تو تمام مقید نوجوانوں کے کیسوں کا جائزہ لیکر اُن کی رہائی کا کام کیا جائے گا، تاکہ خوف اور ڈر کا ماحول ختم کیا جائے۔