ہزار خوف ہو لیکن زباں ہودل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کاطریق
صحافت بظاہر ایک جدید پیشہ ہے لیکن نامحسوس طریقہ سے انسان اسے شاید صدیوں سے برتتا آرہاہے ۔مثال کے طورپر اپنی ملکیت کی حدود میں حالات وواقعات پر گہری نظر رکھنا زمانہ قدیم سے ہی حکمرانوں کی اہم ترین ضرورت رہی ہے ۔اس ضرورت کوپورا کرنے کے لیے ہمیشہ وقائع نویس رکھے جاتے تھے جن کا نوشتہ آج کے مورخین کے لیے تاریخی ماخذ کادرجہ رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ تاریخ اسلام میں ہمیں حضرت عمر ؓکی مثال بھی ملتی ہے۔حضرت عمرؓ قبول اسلام سے پہلے بھی کشتی لڑنے کے فن سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے اوراسلام لانے کے بعد بھی اس فن سے ان کی یہ دلچسپی باقی رہی ۔روایت ہے کہ وہ مدینہ آنے والے بیرونی مہمانوں سے ان کے علاقوں میں ہونے والے کشتی مقابلوں کی تفصیلات معلوم کرکے اسے لکھ لیا کرتے تھے ۔بعدازاں وہ اس روئیداد کوعوامی میلوں میں پڑھ کرسنایا بھی کرتے تھے ۔معروف عالمی جریدہ "فارایسٹرن اکنامک اینڈ پالیٹیکل ریویو”کے الفاظ میں یہ روئیدا دانسانی تاریخ کا پہلا اسپورٹس بلیٹن تھی۔
تاہم سرکاری وقائع نویسوں اورحضرت عمرؓ کے اس جرنلزم میں ایک بنیادی فرق ہے ۔وقائع نویس اگر خبریں جمع کر کے ان کا تجزیہ پیش کرتے تھے تواس کا مقصد صرف بادشاہِ وقت اوراس کے مفادات کواستحکام دینا ہوتا تھا اور چونکہ بادشاہوں کوشاذ ونادر ہی حکمران عادل کہا جاسکتاہے لہٰذا ان کے وقائع نویسوں کی اس”صحافت”کے بارے میں بلاتکلف یہ با ت کہی جاسکتی ہے کہ وہ عوامی مفادات کے ترجمان ہوہی نہیں سکتی تھیں ۔اس کے برعکس حضرت عمرؓ کا اسپورٹس جرنل اپنے اندر صحیح معنوں میں ایک عوامی ’ٹچ‘رکھتا تھا۔صحافت کے یہ دونوں اسلوب اخبارات اوردیگر ذرائع ابلاغ کی ایجاد کے بعد بھی اپنی اپنی جگہ باقی رہے ۔چنانچہ صحافت یاتو ایک اعلیٰ اورارفع عوامی مقصد کوفروغ دینے کا نام ہے، جسے بطور ایک مشن بروئے کارلایا جاسکتا ہے یا یہ محض کسی مخصوص طبقے کے مفادات کی ترجمانی اورنگہبانی کادوسرا نام ہے ۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ صحافت کی اول الذکر قسم آج بڑی حدتک عنقا ہے ۔خود ہمارے ملک میں مقصدی صحافت آزادی کے بعد بڑی حد تک مقصود ہوچکی ہے اور اس کی جگہ جس چیز نے لی ہے، وہ صحافت کم اور صنعت زیادہ ہے ۔
صحافت بطور صنعت بھی شاید بالذات کوئی بری چیز نہیں ہوتی بشر طیکہ اخبارات کے مالکان جوفی الزمانہ صنعت کارہی ہوتے ہیں ،اس پیشہ کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کومحسوس کرتے ،لیکن ہویہ رہاہے کہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کاحقیقی مقصد اپنے مالک صنعت کار گھرانوں کی مصنوعات کومن مانی قیمتوں پر خرید وفروخت میں مدد دیتا ہے ۔اس کے علاوہ یہی ذرائع سیاسی سطح پر بھی صرف ان خبروں کوعام کرتے ہیں جوان کے مالکوں کے مفاد میں ہوں ۔
عوام کے اس سیاسی اور اقتصادی استحصال کے سبب صحافت کوایک ضابطہ اخلاق کے تحت لاناشروع سے ہی ضروری خیال کیاجاتا رہاہے اور اس سلسلے میں ہمیشہ اس بات پر اتفاق رہاہے کہ اخبارات اورالیکٹرانک میڈیا کامقصد صحافی یا اس کے ایمپلائر کوفائدہ پہنچانا نہیں ہے،بلکہ اسے بہرصورت اپنے قارئین اورناظرین کاخدمت گذار ہونا چاہئے،لیکن زمینی حقیقت یقینا اس سے مختلف ہے جس کی وجہ سے صحافت کا پورا ادارہ بڑی حدتک عوام کے اعتماد سے محروم ہوگیا ہے اوراس کی بحالی کے لیے آج یہ بات بھی ضروری خیال کی جاتی ہے کہ ایک "نئے عالمی سیاسی نظام”کے قیام کی طرح ترسیل وابلاغ کوبھی نئی اورعوام دوست روایات سے ہمکنار کرنے کی ضرورت ہے ۔
روزنامہ "ہندوستان ایکسپریس” یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ اس کا اجراءدنیا میں کسی نئے عالمی صحافتی نظام کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ہماری دنیا یعنی اردو صحافت کی دنیا کا دائرہ نسبتاً بہت چھوٹا ہے اور یہی دنیا آج کے بعد ہماری اورہمارے معاونین کی جولانگاہ ہوگی۔ہمارے جوقارئین اس دنیا کے مزاج سے واقف ہیں، وہ اس حقیقت سے بھی واقف نہیں ہوں گے کہ اردو صحافت بیک وقت بڑے پڑھے لکھے اورمجسم جہالت لوگوں کی دنیا رہی ہے ۔چنانچہ ایک طرف تو ہم اس میدان میں سرسید،مولانا شبلی نعمانی ،مولانا آزاد،مولانا ظفر علی خاں ،فیض احمد فیض ،قرةالعین حیدر اور ظ-انصاری جیسی بلند وبالا شخصیات کواپنی جولانی طبع کامظاہرہ کرتے دیکھتے ہیں تو دوسری طرف اسی میدان میں آج ہمیں ایسے لوگ بھی کھڑے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اردو صحافت کوبلیک میلنگ کے اندا زمیں بھیک مانگنے کا وسیلہ بنا کر رکھ دیا ہے ۔تاہم اچھے اردو صحافیوں کی آج بھی کمی نہیں ہے اورخود دہلی سے شائع ہونے والے متعدد روزناموں اورہفتہ وارجرائد،ان کے مالکان اورارکان عملہ اپنے اپنے انداز میں اردو اوراردو صحافت کی بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں۔ہم اردو صحافت کے وسیع ترمفادات میں اپنے ان تمام ہم عصروں کواپنا تعاون دیتے اور ان سے تعاون لیتے رہیں گے ۔
فی الحقیقت روزنامہ "ہندوستان ایکسپریس "کا اجراءآج صرف اس جذبہ کے ساتھ عمل میں لایا جارہاہے کہ اردو کے ایک سچے خدمت گزار کے طورپر ہم صحافت کی ان اعلی روایات کوفروغ دیں جن کی موجودگی میں اس شعبہ حیات میں کسی بھی کاسہ لیس اورکشکول بردار شخص کا ٹکنا ہی ناممکن ہوجائے گا اوراس طرح اردو صحافت کم ازکم اس ملک میں واقع اسرائیلی سفارت خانہ کے ان منحوس سایوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے ،جوا س پرکئی سال سے بڑی خاموشی کے ساتھ دراز ہوتے رہے ہیں۔یہ ایک بڑی جنگ ہے جسے مادی وسائل سے مرحوم ہونے کے باوجود ایک ملی فریضہ کے طورپر بڑی شدومد کے ساتھ ہمیں لڑنا ہے لیکن اس جنگ میں ہمارا سب سے بڑا اورقابل اعتماد ہتھیار قارئین کااشتراک وتعاون ہے جوعنایت ایزدی سے ہمیں بڑی تعداد میں حاصل ہورہاہے ۔آئیے ہم سب اللہ رب العزت کے حضوردست دعا دراز کریں کہ وہ ہماری اورآپ کی اس جدوجہد میں ہماراحامی وناصر ہو۔