کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف دائر عرضیوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کاتبصرہ
نئی دہلی( ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک):کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کےخلاف دائر عرضیوںپر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ تبصرہ کیاہے کہ قانون کے مطابق تعلیمی اداروں کو ڈریس مقرر کرنے کا اختیار ہے ، حجاب الگ معاملہ ہے۔ معاملہ کی اگلی سماعت پیریعنی 19 ستمبر کو ہوگی۔ سپریم کورٹ نے بھلے ہی حجاب پر پابندی معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں سنایا ہے، لیکن یہ بتانے کی کوشش ضرور کی ہے کہ حجاب کو یونیفارم میں شامل نہیں کیا جا سکتا، اور تعلیمی ادارے میں کون سا یونیفارم پہننا ہے یہ فیصلہ لینے کا حق ادارے کے پاس موجود ہے۔
حجاب معاملے پر سپریم کورٹ میں تقریباً روزانہ ہو رہی سماعت آج جب ختم ہوئی تو اسے پیر کے روز بھی جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ یعنی 16 ستمبر کو فیصلہ آنے کی جو امید لگائی جا رہی تھی، وہ ختم ہو گئی ہے۔ حالانکہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ ہفتے میں دو رکنی بنچ یا تو فیصلہ سنا سکتی ہے، یا پھر اسے بڑی بنچ کو بھیج سکتی ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آج جو تبصرہ حجاب سے متعلق کیا ہے، وہ کئی معنوں میں اہم ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کرناٹک کے جس اسکول سے حجاب کا تنازعہ شروع ہوا تھا، اس اسکول کی انتظامیہ بھی یہی دلیل پیش کرتی رہی ہے کہ یونیفارم طے کرنے کا اختیار اس کے پاس موجود ہے۔ حالانکہ حجاب پر پابندی کے خلاف داخل کی گئی عرضیوں کی پیروی کرتے ہوئے وکلاء بار بار کہہ رہے ہیں کہ حجاب مسلم خواتین کے لیے بہت اہم معاملہ ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مسلم طالبات کے اسکول چھوڑنے کی باتیں بھی 13 ستمبر کو ہوئی سماعت میں عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھی گئی تھیں۔
آپ کو بتادیں کہ اس حجاب کے مسئلے پرعدالت عظمیٰ میں جاری سماعت کے درمیان سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل نے کہاہے کہ یہ معاملہ آئینی بینچ کو بھیجا جانا چاہئے۔سبل نے کہا تھا کہ یہ مطالبہ اس لئے اہم ہے، کیونکہ یہ اختیار کا معاملہ ہے کہ میں کیا پہنوں یا نہ پہنوں۔ وہیں حجاب معاملہ میں طالبہ کی طرف سے پیش وکیل کالن گونزالویز نے کہا کہ جب سکھوں کو کرپان رکھنے کی آزادی ہے، پگڑی پہننے کو منظوری دی گئی ہے اور جب کرپان اور پگڑی کو آ?ئینی تحفظ دیا جاسکتا ہے تو پھر حجاب میں کیا پریشانی ہے ؟۔ کپل سبل نے کہا کہ قانون اظہار رائے کی آ?زادی پر تب تک پابندی نہیں لگا سکتا، جب تک کہ وہ امن عاملہ یا اخلاقیات اور شائستگی کے خلاف نہ ہو۔ کرناٹک میں ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آ?یا، جس سے ریاست کیلئے آ?ئین کے خلاف مداخلت کرنے کی صورت پیدا ہوئی ہو۔وہیں طالبہ کی جانب سے پیش وکیل کالن نے کہا کہ جب پہلے بھی دیگر کو تحفظ دیا گیا ہے تو اب اسی تحفظ کو حجاب تک کیوں نہیں بڑھایا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کاآ?ئین ایک زندہ دستاویز ہے۔ یہ وقت اور حالات کے حساب سے ترمیم ہوتا ہے۔ وکیل پرشانت بھوشن نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جب اسکولوں میں پگڑی، تلک اور کراس کو بین نہیں کیا گیا تو پھر حجاب پر پابندی کیوں؟ یہ صرف ایک مذب کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا ہے۔