انسانی حقوق کے معروف کارکن گوتم نولکھا کی عرضی پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے’ پرائیوٹ جیل’ تعمیرکا مشورہ دیا
نئی دہلی( ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک):سپریم کورٹ نے ملک میں جیلوں کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مشورہ دیا ہےکہ ملک میں کارپوریٹ کمپنیوں کی مدد سے بڑے پرائیوٹ جیل تعمیر کیے جائیں۔ جرمن خبررساں ادارہ ڈوئچ ویلے کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے جیلوں کی خراب صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قیدیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک اختراعی مشورہ دیاہے۔
جسٹس کے ایم جوزف کی صدارت والی بنچ نے ملک میں پرائیوٹ جیلوں کی تعمیر کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے بڑے کارپوریٹ گھرانے اپنی ‘کارپوریٹ سماجی ذمہ داری’ کے تحت پرائیوٹ جیلیں تعمیر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ”ملک میں جیلوں کے بارے میں مطالعات کیے گئے ہیں۔ زیر سماعت مقدمات سے متعلق الزامات میں بند قدیوں کی تعداد تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔ جیلوں کی تعمیر کسی بھی حکومت کی سب سے کم ترین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ وہ ہسپتال بنواتی ہیں، وہ اسکول بنواتی ہیں لیکن جیلوں کی تعمیر پر توجہ نہیں دیتیں۔‘‘
عدالت عظمٰی کا کہنا تھا،”یورپ میں پرائیوٹ جیلوں کا تصور موجود ہے۔ وہاں نجی ذمہ داری کا تصور ہے۔ ہمارے یہاں بھی کارپوریٹ سماجی ذمہ داری موجود ہے۔ اگر آپ انہیں خاطر خواہ ترغیب دیں تو وہ جیلیں بناسکتے ہیں۔ کیونکہ آپ نہیں چاہتے کہ اس کے لیے سرکاری خزانے کا استعمال کیا جائے۔‘‘
عدالت نے یہ تبصرہ انسانی حقوق کے معروف کارکن گوتم نولکھا کی ایک عرضی پر سماعت کے دوران کیا۔ گوتم نولکھا نے خرابی صحت کی بنیاد پر عدالت سے درخواست کی ہے کہ انہیں ممبئی کے تلوجلا جیل سے گھر میں منتقل کرکے نظر بند کردیا جائے۔ عدالت نے بہر حال ان کے میڈیکل رپورٹ پر غور کرتے ہوئے انہیں ممبئی کے ایک ہسپتال میں منتقل کرنے کا حکم دیا۔ نولکھا کو آنتوں کا کینسر ہے۔
گوتم نولکھا کے وکیل اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے بتایا کہ ایک تو جیلیں گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں اور وہاں مریضوں کے علاج کے صرف آیوروید یعنی دیسی طریقہ علاج کے ڈاکٹر دستیاب ہیں۔
جسٹس جوزف نے جیلوں کی ابتر صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم قیدیوں کی زندگیوں کو غیر انسانی نہیں بناسکتے، حالانکہ اس وقت قیدیوں کے مقابلے میں جانوروں کا علاج کہیں زیادہ بہتر طور پر ہورہا ہے۔‘‘
جسٹس جوزف کا کہنا تھا کہ جیل کے ضابطے کے مطابق زیر سماعت قیدیوں اور مجرم قرار دیے گئے قیدیوں کو ایک ساتھ نہیں رکھا جاسکتا۔ اور جیلوں کا نظام اتنا خراب ہے کہ وہاں ہمیشہ ایک دوسرے سے انتقام لینے کا رجحان رہتا ہے۔ انہوں نے کہا، ”اگر آپ نے کبھی جیل کا دورہ کیا ہو تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہاں ہر طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، لوگوں کے ساتھ جبراً جنسی زیادتیاں تک کی جاتی ہیں۔ اس سے سسٹم کے خلاف انتقام لینے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے پرائیوٹ جیلیں تعمیر کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”کارپوریٹ گھرانے پرائیوٹ جیل تعمیر کرنے کے بعد حکومت کے حوالے کردیں گے اور اس کے بدلے میں وہ انکم ٹیکس میں رعایت حاصل کرسکتے ہیں۔ اس سے ایک نیا تصور ابھرے گا، یعنی پیشگی ضمانت سے پیشگی جیل کا تصور۔‘‘
انہوں نے سویڈن اور ناروے کے جیلوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کے جیل انتہائی خوبصورت ہیں۔ وہاں کی جیلیں کسی ہوٹل کی طرح ہیں۔ کمروں کے ساتھ منسلک باتھ روم ہوتا ہے، ٹی وی ہوتا ہے اور قیدیوں کو تمام طرح کی ضروری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔