تُونس(ایجنسیاں):تُونس میں پارلیمانی انتخابات کے لیے ہفتے کے روز ووٹ ڈالے جارہےہیں۔سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیاہے اور انھوں نے صدر قیس سعیّد پر بغاوت کا الزام عایدکیا ہے۔
رائے دہندگان نئے آئین کے تحت پارلیمان کاانتخاب کریں گے۔حزب اختلاف اس آئین کوغیر قانونی قراردیتی ہے۔اس کی منظوری جولائی میں ریفرنڈم دی گئی تھی لیکن اس ٹرن آؤٹ کم رہا تھا۔صدرقیس سعیّد نےگذشتہ سال پارلیمنٹ کومعطل کردیا تھا۔
ان انتخابات میں تُونس کی مرکزی سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی میں کل 1058 امیدوارمیدان میں ہیں اور وہ 161 نشستوں پرانتخاب لڑ رہے ہیں۔ان میں سے صرف 120 خواتین امیدوار ہیں۔
ان میں سے 10نشستوں پر صرف ایک امیدوار انتخاب میں حصہ لے رہاہے۔ان میں سے سات تُونس میں اور تین تارکین وطن ووٹر کی جانب سے طے کیے گئے ہیں۔ بیرون ملک مقیم رائے دہندگان کے ذریعہ منتخب کی جانے والی نشستوں میں سے مزید سات پرکوئی امیدوار انتخاب نہیں لڑرہاہے۔
قیس سعیّد2019 میں صدرمنتخب ہوئے تھے۔انھوں نے انتخابات کو افراتفری اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایک روڈ میپ کا حصہ قراردیا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ سابقہ نظام کے تحت تُونس کومتاثرکیاگیاتھا۔
دریں اثناءان کے مخالفین بشمول اسلام پسندالنہضہ پارٹی نے ان پر بغاوت کا الزام عاید کیا ہےاور گذشتہ موسم گرما کے بعد سے صدر کے دیگرتمام اقدامات کے ساتھ ساتھ بیلٹ کو مسترد کردیا ہے۔تُونسی صدر نے پارلیمان کوتحلیل کرنے کے بعد ایک فرمان کے ذریعہ تمام اقتدارسنبھال لیا تھا۔تُونس میں یہ انتخابات ایک ایسے معاشی بحران کے پس منظر میں ہو رہے ہیں جوغُربت کو ہوا دے رہا ہے اور اس کی وجہ سے بہت سے لوگ اسمگلروں کی کشتیوں پر سوار ہو کر یورپ کے خطرناک سفر پرروانہ ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔