لندن: امریکہ کی طرح برطانیہ میں بھی اسرائیل کی فلسطینی بچوں پر مسلسل بمباری شدید عوامی غصے کا سبب بن رہا ہے۔ جمعہ کے روز برطانیہ میں اسرائیل مخالف درجنوں مظاہرین نے اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کرنے والی فیکٹری کا داخلی راستہ بلاک کر دیا۔ یہ فیکٹری انگلینڈ کے جنوب مشرق میں قائم ہے اور سب سے بڑی اسلحہ ساز فیکٹری ہے۔
مظاہرین فیکٹری کے دروازے پر مظاہرے کے دوران یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ‘ اسرائیل کو اسلحہ دینا بند کرو۔’ ان مظاہرین نے اس دوران فلسطین کے پرچم بھی اٹھا رکھے تھے۔ پچاس کے قریب مظاہرین فیکٹری کے سامنے والے دروازے کی طرف کھڑے تھے۔ جو دوسرے دروازوں پر بھی پہنچ گئے۔ یہ اسلحہ بنانے والی برطانوی فیکٹری جنگی جہازوں میں استعمال ہونے والے الیکٹرانک آلات تیار کرتی ہے۔ نیز نگرانی کے لیے بروئے کار آنے والے آلات بناتی ہے۔مظاہرین میں اسرائیلی بمباری کو غیر انسانی رویہ قررا دینے والے عام لوگوں کے علاوہ ٹریڈ یونین کے کارکن بھی تھے۔فیکٹری کا موقف ہے کہ وہ کسی بھی ملک یا فوج کو براہ راست اسلحہ سپلائی نہیں کرتی بلکہ یہ امریکہ کے ایف 35 جنگی طیارے بنانے والی کمپنی کو سامان دیتی ہے، یہ ایف 35 طیارے اسرائیلی فوج کے زیر استعمال ہیں۔فیکٹری کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ‘ اسے بھی اسرائیل اور حماس کی جنگ پر تشویش ہے اور شہریوں پر پڑنے والے تباہ کن اثرات سے خوفزدہ ہیں، امید رکھتے ہیں اسے جلد نمٹا لیا جائے گا۔ ‘
واضح رہے فیکٹری کی طرف سے یہ تو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے طور پر کوئی اسلحی ایکسپورت نہیں کرتی نہ سپلائی کرتی ہے بلکہ ایک قاعدے قانون کے مطابق سب کام کرتی ہے لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ قاعدہ اور قانون کس کا ہے جس پر وہ عمل کر کے مہلک اسلحہ سازی کا کام کرتی ہے۔برطانیہ کی اس حساس نوعیت کی فیکٹری کے باہر یہ احتجاج یورپ کے بعض دوسرے میں میں یونینز کی طرف سے بیلجئیم اور سپین کی فیکٹریوں میں اسرائیل کی جنگ کے دوران اسلحہ کی ترسیل کا کاکام سنبھالنے سے انکار کر دیا ہے۔علاوہ ازیں برطانیہ اور امریکہ کے بڑے شہروں میں مسلسل مظاہرین اسرائیلی بمباری کے خلاف سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں بشمول ہارورڈ میں بھی احتجاج کیا گیا ۔حتیٰ کہ امریکی سیاسی اور حکومتی قیادت کو بھی اہم تقریبات میں سامعین کی طرف سے اسرائیلی حمایت پر مبنی پالیسی کی وجہ سے سخت احتجاج کا سامنا کرنا پڑچکا ہے۔ امریکی کانگریس ارکان بھی جوبائیڈن انتظامیہ کی پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں۔کئی یورپی رہنما پوری دنیا میں بالعموم اور مغربی ملکوں میں بالخصوص عوامی احتجاج کی شدت پکڑتی اس لہر کے بارے میں بات کر چکے ہیں جبکہ برطانوی پولیس نے بھی اپنی حکومت کو اس بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے۔