نئی دہلی (یو این آئی) انتخابی اصلاحات پر لوک سبھا میں بحث کے دوران وزیر داخلہ امت شاہ اور حزبِ اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی کے درمیان بحث ہوئی۔مسٹر شاہ کی تقریر کے درمیان راہل گاندھی نے کہا کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار فیصلہ کیا گیا ہے کہ الیکشن کمشنر کو پوری امیونٹی دی گئی۔ ہم نے ہریانہ میں 19 لاکھ جعلی ووٹروں کا ثبوت دیا ہے۔ راہل گاندھی نے مسر شاہ سے کہا ’’میں آپ کو چیلنج دیتا ہوں کہ آپ میری ووٹ چوری سے متعلق تینوں پریس کانفرنسوں پر بحث کریں۔‘‘

اس پر مسٹر امت شاہ نے کہا کہ ’’میں 30 سال سے اسمبلی اور لوک سبھا سے منتخب ہو کر آ رہا ہوں۔ مجھے پارلیمانی نظام کا طویل تجربہ ہے۔ حزبِ اختلاف کا لیڈر کہتے ہیں کہ پہلے میری بات کا جواب دیجئے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ پارلیمنٹ آپ کے حساب سے نہیں چلے گی۔ میں اپنے خطاب کا طریقہ خود طے کروں گا۔‘‘
مسٹر شاہ نے کہا کہ حزبِ اختلاف کے لیڈر کو صبر رکھنا چاہیئے میرا جواب سننے کا۔ ایک ایک بات کا جواب دیا جائے گا، لیکن میرے خطاب کا ترتیب وہ طے نہیں کر سکتے۔ یہ میں طے کروں گا کہ کیسے جواب دینا ہے۔ میں سبھی جواب دوں گا، اپنی تقریر کا سلسلہ میں خود طے کروں گا، حزبِ اختلاف کا لیڈر نہیں۔ میں ان کے اکسانے میں نہیں آؤں گا۔اس پر راہل گاندھی نے کہا کہ مسٹر شاہ کے جواب ڈر اور گھبراہٹ والے ہیں۔ مسٹر شاہ نے کہا کہ ’’میں ان کے ماتھے پر فکر کی لکیریں صاف دیکھ رہا ہوں کہ میں کیا بولوں گا۔ میں ان کے اکسانے میں نہیں آؤں گا، اپنے سلسلے سے بولوں گا۔‘‘
کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے کہا کہ ’’سونیا گاندھی نے اس انتخاب میں ووٹ تک نہیں دیا تھا۔ گمراہ کن بیانات دیے جا رہے ہیں۔ میں اسے چیلنج دیتا ہوں کہ کیا آپ اسے ثابت کر سکتے ہیں؟‘‘
ادھر راجیہ سبھا میں اپوزیشن نے بدھ کے روز قومی گیت”وندے ماترم” کے 150 سال مکمل ہونے کے موقع پر منعقدہ بحث کے دوسرے دن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا کہ وہ اس بحث کے ذریعے تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے سیاست کر رہی ہے جبکہ حکمراں جماعت کے ارکان نے کہا کہ مجاہدین آزادی کو تحریک دینے والے اس گیت کو قومی گیت کے طور پر اپناتے وقت کانگریس نے ”خوشامد پسندی کی سیاست” کے تحت اس کے کئی بند چھوڑ دئے تھے۔
بی جے پی کے نرہری امین نے کہا کہ ”سوَدیشی” اور ”وندے ماترم” ہمارے مجاہدین آزادی کی حکمتِ عملی اور تحریک کا ذریعہ تھے۔کانگریس کے جے رام رمیش نے ”وندے ماترم” کو مختصر کرنے میں پنڈت جواہر لعل نہرو کے رول کے تعلق سے لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کیا۔ انہوں نے 1937 سے 1940 کے درمیان ڈاکٹر راجندر پرساد، گُرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور، آچاریہ جے بی کرپلانی، سی راج گوپالاچاری اور سبھاش چندر بوس جیسے کانگریس کے لیڈروں کے درمیان بنکم چندر چٹوپادھیائے کے اس گیت پر خطوط کے تبادلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 28 اکتوبر 1937 کو کلکتہ میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے گیت کے دو بند اپنانے اور گانے کی تجویز کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔
مسٹر رمیش نے کہا کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی اس میٹنگ میں مہاتما گاندھی، سبھاش چندر بوس، سردار ولبھ بھائی پٹیل، پنڈت نہرو، گوند بلبھ پنت، مولانا ابوالکلام آزاد اور آچاریہ کرپلانی موجود تھے اور ”وندے ماترم” کی قرار داد اتفاقِ رائے سے منظور ہوئی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت اس بحث کے ذریعہ سیاست کر رہی ہے اور ”اقتدار میں بیٹھے لوگ نہرو ہی نہیں،بلکہ گُرو دیو رابندرناتھ ٹیگور کی بھی توہین کر رہے ہیں”۔
کانگریس کے رکن نے کہا کہ بنکم چندر چٹرجی کا ذکر کرتے وقت اس بنکم چندر کو بھی یاد کرنا چاہئے جو روحانیت اور سائنس کا حسین امتزاج پیش کرتا تھا، جس نے 1876 میں مہندر لال سرکار کے ساتھ مل کر کلکتہ میں ”انڈین ایسوسی ایشن فار کلٹیویشن آف سائنس” قائم کی تھی جس میں تعلیم حاصل کرنے والے سی وی رمن کو طبیعیات کا نوبل انعام ملا۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ بحث نہرو کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ ان کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، اس کی تاریخ میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔”سی پی آئی کے سندوش کمار پی نے بھی کہا کہ بی جے پی پر گاندھی اور نہرو کا خوف چھایا رہتا ہے اور وہ ”وندے ماترم” کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرناچاہتی ہے۔ بیجو جنتا دل کے دیواشیش سامنت رائے نے جد و جہد آزادی میں اس گیت کے رول کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”وندے ماترم” اور ”جن گن من” دونوں ہمارے قومی گیت اور قومی ترانہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”تاریخ کو کوئی بدل نہیں سکتا۔”












