ممبئی (یو این آئی) ممبئی کے چمبور علاقے میں واقع ایک کالج ایک بار پھر سرخیوں میں آگیا ہے۔ کالج کی جانب سے مسلم لڑکیوں کے برقعہ، حجاب اور نقاب پہنے پر پابندی لگاتے ہوئے اس لباس کو "غیر مہذب” کہا گیاہے۔ جس سے مسلم عوام میں بے چینی اور غصہ پاہا جا رہا ہے۔ عیاں رہے کہ اس سے قبل ایک سال پہلے بھی اسی کالج کی طرف سے یہ حرکت کر کے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی گئی تھی۔تفصیلات کے مطابق ممبئی کے چمبور علاقے میں واقع این جی اچاریہ کالج میں نئے تعلیمی سال 2024-2025 کے لیے مسلم لڑکیوں کو کالج وہاٹس اپ گروپ میں میسج ڈلا گیا کہ وہ مہذب لباس پہن کر کالج آئیں۔ حجاب، نقاب اور برقعہ نہ پہنیں۔ جس سے کالج کی مسلم لڑکیوں نے سخت احتجاج شروع کیا ہے۔ اور کالج کے سامنے ’تانا شاہی نہیں چلے گی، نہیں چلے گی اور نیا حکم نامہ واپس لو واپس لو‘کے نعرے لگائے۔
کالج کی جانب سے لگائی گئی پابندی کو طلباء تاناشاہی والاحکم قرار دے رہے ہیں، مسلم عوام اور لیڈروں میں بھی ناراضگی پیدا ہوئی ہے۔ اور مختلف حلقوں سے شیوسینا(ٹھاکرے) کے لیڈر کے کالج کے اس حکم کہ مذمت کی جا رہی ہے۔ممبئی میں سیلم سارنگ فاونڈیشن کے سربراہ اور نامور مسلم تاجر سیلم سارنگ نے ایکس (ٹیوٹر) پر ایک پوسٹ میں کالج کے مسلم لڑکیوں کے احتجاج کی ویڈیو شئیر کرتے ہوے لکھا ہے کہ’این جی آچاریہ کالج (چیمبور) ادھو ٹھاکرے کے سینا لیڈر سبودھ آچاریہ کے ذریعہ چلایا جاتا ہے۔جہاں مسلمانوں کو ان کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنے کی اجازت نہ دینا، سیکولر ہونے کا بہانہ کرنے والے کے اصل رنگ کو دیکھاتاہے! نام نہاد سیکولر جماعتیں صرف مسلمانوں سے ووٹ چاہتی ہیں، مسلمان نہیں۔ یہ یاد رکھیں!‘۔
اسی طرح نامور عالم دین مولانہ اشرفی نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے اور اس کالج کے اس حکم کو مسلمانوں نے جذبات سے کھیلنے والا قرار دیے کر فوری واپس لینے کا مطالبہ کیاہے۔چمبور علاقے میں واقع این جی اچاریہ کالج کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے والی ایک مسلم لڑکی نے بتایا کہ، انکے فون پر کالج کے گروب سے کلاس گاردین پروین نامی لکچرار نے میسج بھیجا ہے جس میں نقاب، حجاب اور برقعہ نہ پینے کی بات کی گئی ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ نقاب، حجاب اور برقعہ کو غیر مہذب لباس کہا گیاہے۔ ایک دوسری لڑکی نے بتایا کہ انھوں نے کالج کی پرنسپل سے مل کر اس ضمن میں بات کرنے کی کوشش کی لیکن پرنسپل نے اس بات کرنے سے منع کردیا۔احتجاج کرنے والی لڑکی نے بتایا کہ اس ضمن میں، اقلیتی کمیشن اور خواتین کمیشن میں شکایت درج کی جا چکی ہے۔
اسی طرح ایکس (ٹیوٹر) پر ایڈوکیٹ آصف عالم نے لکھا ہے کہ انھوں نے اس کالج، محکمہ تعلیمات اور حکومت مہاراشٹر کو ایک قانونی نوٹس بھیجا ہے۔ اسی طرح ایکس پر علی شاہ سیخ نے اپنی ناراضگی جتاتے ہویے لکھا ہے کہ ان لوگوں کو مسئلہ حجاب سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے۔بتادیں کہ، اس سے قبل بھی اسی کالج کی جانب سے ایس ہی ایک حکم جاری کیاگیا تھا۔جس کو لے کر ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔کالج کی پرنسپل ودیا گوری نے کہا تھا کہ گیارہویں اور بارہویں کے لیے یونیفارم ہونا چاہیے، کیونکہ یہ سیکنڈری تعلیم کے تحت آتا ہے۔بعد ازاں اھتجاج کے بعد، پرنسپل ودیا گوری نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبات کی حفاظت اور وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے برقعہ، حجاب یا ہیڈ اسکارف پہن کر کالج آنے کی اجازت دی جائے گی۔ لیکن انہیں کلاس روم میں داخل ہونے سے پہلے اسے واش روم میں اتارنا ہوگا اور شام کو کلاس روم سے نکلتے وقت دوبارہ پہن سکتے ہیں۔ طلباء کو کالج کیمپس میں یونیفارم میں رہنا ہوگا۔