ممبئی (یو این آئی ) مشہور فلمی نغمے "تم بن جاؤں کہاں ؟” کے مترادف ممبئی ہائی کورٹ کے روبرو ایک ہندو دوشیزہ جو ایک مسلم نوجوان کے دام محبت میں گرفتار ہے -اس نے اپنے ہندو والدین کے ہمراہ رہنے سے انکار کرتے ہوئے مسلم نوجوان کے ہمراہ زندگی گزرانے کا اظہار کیا جس کے بعد عدالت نے اسے مزید سوچنے کا موقع فراہم کرتے ہوِئے عدالت کی کاروائی کل ١٣ دسمبر تک ملتوی کردی-
ممبئی ہائی کورٹ میں دائر شدہ عرضداشت کے مطابق ٢٠ سالہ مسلم نوجوان اور ١٩ سالہ ہندو دوشیزہ دراصل لیو ان لیریشن شپ میں رہنا چاہتے تھے لیکن ان کے اس معاشقے کی اطلاع جب لڑکی کے والدین کو ہوئی تو انہوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے اس کی شکایت پولیس میں کی پھر چند مذہبی تنظیموں نے بھی پولیس میں شکایت کی لیکن لڑکی اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی چونکہ لڑکی بالغ تھی -پولیس نے لڑکی کو اپنی تحویل میں لے کر اسے ممبئی کے چیمبور نامی علاقے میں ریاستی حکومت کے زیر انتظام چلائی جانے والی خواتین کی پناہ گاہ میں رکھ دیا۔
پولیس کے اس رویہ کے خلاف نوجوان نے ممبئ ہائی کورٹ میں حبس بیجا کے تحت دائر ایک عرضداشت داخل کی-عرضداشت کی سماعت کے بعد پولیس نے دوشیزہ کو عدالت میں پیش کیااس کے دوران جسٹس بھارتی ڈانگرے اور جسٹس منجوشا دیش پانڈےپر مشتمل بینچ نے جب دوشیزہ سے دریافت کیا کہ وہ کہا رہنا چاہتی ہے تو دوشیزہ نے انتہائی بے باکانہ انداز میں کہا کہ وہ نوجوان کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے-
عدالت نے اس سے مزید سوالات بھی پوچھے اور یہ بھی مشورہ دیا کہ چونکہ نوجوان کی عمر صرف ٢٠ سال ہے وہ ابتک شادی کی قانونی عمر تک نہیں پہنچا ہے جب تک وہ مستحکم نہیں ہوجا تا ہے وہ مزید انتظار کریں نیز اگر نوجوان نے بعد میں اسے چھوڑ دیا تو اس کا کیا ہوگا ؟دوشیزہ نے برجستہ جواب دیا کہ اس کی قسمت وہ اکیلے جی لے گی۔ اب اس نے فیصلہ کر لیا ہے اور وہ عرض گزار کے ساتھ ہی رہے گی-عدالت نے کہا کہ دوشیزہ باغی ہوگئی ہے وہ خیالوں کی دنیا میں رہ رہی ہے اور اس طرح کے جوابات دینا فلموں کے ڈائیلاگ کی طرح لگتے ہے-
عدالت نے اس موقع پر نوجوان سے بھی سوالات پوچھے جس کے جواب میں اس نے کہا کہ پہلے وہ کال سینٹر میں ملازمت کرتا تھا اور ابھی اس نے زیرجامہ لباس کا کاروبار شروع کیاہےاسے توقع ہے کہ وہ اچھا کاروبار کر لے گا-
ِعدالت نے یہ بھی کہا کہ عرضی گزار کے وکلاء نے پولیس تحفظ کا مطالبہ کیا ہے جو ان حالات میں ممکن نہیں ہے نیز عدالت دوشیزہ کے والدین کو حکم دیتی ہیکہ وہ دوشیزہ سے جاکر ملاقات کریں اور اسکے بعد اس ضمن میں عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی-وکلاء کے مطابق خاتون کو سرکاری پناہ میں رکھے جانے کے بعد عرض گزار نے عدالت سے رجوع کیا اور دلیل دی کہ خاتون کے متعدد مرتبہ یہ کہنے کے باوجود کہ وہ بغیر کسی جبر کے رضامندی سے اس کے ہمراہ "لیو ان ریلیشن شپ” میں زندگی گزار رہی ہے نیز اس نے اس ضمن میں ایک نوٹری شدہ حلف نامہ بھی دیا تھا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ اس کا نوجوان کے ساتھ رہنے کا انتخاب اور اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اس کی اپنی مرضی کے مطابق تھا اور وہ بغیر کسی جبر یا غیرضروری اثر پر مبنی تھا۔
درخواست گزار کے وکلاء لوکیش زیدئے آصف لطیف شیخ اور عابد عباس سید نے عدالت کو بتلایا کہ پولیس کے روبرو تمام حقائق حلف نامہ کی نقول اور دیگر دستاویزات پیش کئے گئے تھے لیکن اس کے باوجود بھی پولیس نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت اس کے جینے اور آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔دوشیزہ کے والدین کی جانب سے ثناء شیخ نے پیروی کی اور عرضداشت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عرض گزار شادی کی قانونی عمر تک نہیں پہنچا ہے-عدالت نے کاروائی ١٣ دسمبر تک ملتوی کر دی-












