وزیر خارجہ حسین عامر عبد الہیان، گورنر تبریز اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ترجمان بھی جاں بحق
تہران(ایجنسیاں) صدر ابراہیم رئیسی اور ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔آج صبح حادثے کا شکار ہیلی کاپٹر کا ملبہ ملا تھا جس کے بعد ایرانی صدر اور ہیلی کاپٹر میں سوار افراد کے بچ جانے کی امیدیں دم توڑ گئیں تھیں۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے ایرانی میڈیا ’مہر‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ابراہیم رئیسی اور ایرانی وزیرخارجہ ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔سینئر ایرانی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیاکو بتایا کہ ’صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ اور ہیلی کاپٹر میں سوار تمام مسافر حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔‘قبل ازیں ایران کے ہلال احمر کے سربراہ نے کہا تھا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا لاپتہ ہیلی کاپٹر مل گیا ہے لیکن صورت حال ’اچھی نہیں ہے۔‘ایک اور ایرانی عہدیدار نے بتایا تھا کہ ’صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر حادثے میں مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے، بدقسمتی سے، تمام مسافروں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔‘ایرانی ہلال احمر کے سربراہ پیرحسین کولیوند نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ہم ملبے کو دیکھ سکتے ہیں اور صورتحال اچھی نہیں لگتی۔ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے تھا کہ صدر ابراہیم رئیسی اور ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے ’حادثے‘ کے بعد بڑے پیمانے پر سرچ اینڈ ریسکیو کا کام جاری ہے۔پاسداران انقلاب سمیت مختلف ممالک کی ٹیمیں حادثے کے مقام پر موجود ہیں، ترکیہ اور روس کے ریسکیو ماہرین بھی آپریشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق ترکیہ کے ڈرون نے ہیلی کاپٹر کا مقام ڈھونڈا جبکہ شدید دھند اور انتہائی خراب موسمی صورتحال کے باعث ریسکیو اہلکاروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

اس درمیان خبر ہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کے مقام کی ابتدائی فوٹیج سامنے آگئی۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ تبریز شہر سے 100 کلو میٹر دور مشرقی آذر بائیجان صوبے میں پیش آیا، حادثے کے وقت ہیلی کاپٹر میں ایران کے وزیر خارجہ حسین عامر عبد الہیان، گورنر تبریز اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ترجمان سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی سوار تھے۔ایرانی میڈیا نے ہیلی کاپٹر حادثے میں صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین عامر عبدالہیان اور گورنر تبریز کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی نے ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کے مقام کی فوٹیج بھی جاری کر دی ہے جس میں ہیلی کاپٹر کو دیزمر کے جنگلات میں تباہ حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کریش ہونے کے مقام پر ہیلی کاپٹر کا ملبہ مل گیا ہے اور ریسکیو ٹیمیں جائے حادثہ تک پہنچ گئی ہیں۔
ایرانی میڈیا رپورٹس میں ایرانی ہلال احمر کے سربراہ کے حوالے سے یہ بھی بتایا ہے کہ ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہونے والے کچھ افراد کی لاشیں جلنے کی وجہ سے ناقابل شناخت ہو گئی ہیں۔
ادھرایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی حادثاتی موت کے بعد نائب صدر محمد مخبر دزفولی کو 2 ماہ کے لیے ملک کا عبوری صدر مقرر کر دیا گیا ہے۔ایرانی میڈیا کے مطابق محمد مخبر کو دو ماہ کے لیے ایران کا عبوری صدر مقرر کر دیا گیا ہے۔ ایرانی آئین کے مطابق 50 دن کے اندر دوبارہ صدارتی انتخاب کرایا جائے گا۔ایرانی نائب صدر محمد مخبر دزفولی 1955 میں ایران کے علاقے دزفول میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم دزفول اور اہواز میں جاری حاصل کی۔محمد مخبر نے الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس بین الاقوامی قانون میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں ہیں۔۔
ایرانی نائب صدر خوزستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے سی ای او، خوزستان کے ڈپٹی گورنر، سینا بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین اور نائب وزیر تجارت اور ٹرانسپورٹیشن بھی رہے ہیں۔
68 سالہ محمد مخبر ابراہیم رئیسی کی طرح سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔1955 میں پیدا ہونے والے محمد مخبر ایرانی مصالحت کونسل کے رکن بھی ہیں۔ابراہیم رئیسی نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اگست 2021 میں محمد مخبر کو اپنا پہلا نائب صدر مقرر کیا تھا۔محمد مخبر ایرانی حکام کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے اکتوبر2023 میں ماسکو کا دورہ کیا تھا اور روس کی فوج کو میزائل اور مزید ڈرون فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔اس ٹیم میں ایران کے پاسداران انقلاب کے دو سینئر اہلکار اور سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ایک اہلکار بھی شامل تھے۔اس سے قبل محمد مخبر سپریم لیڈر سے وابستہ سرمایہ کاری فنڈ سیتاد کے سربراہ رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ وہ سینا بینک کے بورڈ چیئرمین اور صوبہ خوزستان کے ڈپٹی گورنر ہیں۔2013 میں امریکی محکمہ خزانہ نے سیتاد اور اس کے زیر انتظام 37 کمپنیوں کو پابندی کی فہرست میں شامل کیا تھا۔نائب ایرانی صدر کے پاس دو ڈاکٹریٹ ڈگریاں ہیں جن میں بین الاقوامی حقوق میں ڈاکٹریٹ کا تعلیمی مقالہ بھی شامل ہے، انہوں نے مینجمنٹ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔
ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہونے والے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 2021 سے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر تھے۔
14 دسمبر 1960 کو ایران کے شہر مشہد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والے ابراہیم رئيسی قدامت پسند سیاستدان، اسلامی قانون دان اور مصنف بھی تھے۔
ابراہیم رئیسی نے مذہبی تعلیمات کا ٓآغاز قُم کے مدرسے سے کیا اور 20 سال کی عمر میں ہی وہ ایران کے عدالتی نظام کا حصہ بن گئے۔
کرج شہر کے پراسیکیوٹر نامزد ہونے سے لے کر ہمادان اور پھر تہران کے پراسیکیوٹر جنرل بنے، وہاں سے جوڈیشل اتھارٹی کے نائب سربراہ اور پھر 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹڑ جنرل مقرر ہوئے۔
1988 میں ابراہیم رئیسی اُس پراسیکیوشن کمیٹی کا حصہ تھے جس نے ملک بھر میں بے شمار سیاسی قیدیوں کو سزائے موت سُنائی، 2017 کا صدارتی الیکشن وہ اعتدال پسند صدر حسن روحانی سے ہار گئے تاہم دوسری مرتبہ 2021 میں وہ 62.9 فیصد ووٹوں سے ایران کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے۔
اقتدار کے ایک سال بعد ہی ابراہیم رئیسی کی حکومت کو 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔
خارجہ پالیسی میں ابراہیم رئیسی علاقائی خودمختاری کے حامی مانے جاتے تھے، امریکی افواج کے انخلاء کے بعد انہوں نے افغانستان میں استحکام کی حمایت کی اور کہا کہ افغان سرحد کے اطراف داعش جیسے کسی بھی دہشت گرد گروپ کو پیر جمانے نہیں دیا جائے گا۔
ابراہیم رئیسی نے شام کے ساتھ اسٹریٹجک روابط مستحکم کیے، یمن میں سعودی ناکہ بندی کی شدید مخالفت کی، یوکرین جنگ میں روس کی حمایت کا اعلان کیا، 2023 کے دورہ چین میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے 20 معاہدے کیے، اور کچھ ہی دن بعد ابراہیم رئیسی کی قیادت میں ایران اور سعودی عرب نے 2016 سے منقطع سفارتی تعلقات بحال کر لیے۔
اُنہوں نے غزہ جنگ میں اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی اور کہا کہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
مسٹر رئیسی نے 2021 میں ایک ایسے وقت میں بطور صدر ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی جب ایران شدید سماجی بحران کے ساتھ ساتھ اپنے متنازع جوہری پروگرام کے سبب امریکا کی وجہ سے عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے معاشی دباؤ کا شکار تھا۔
انہیں اپنے دور میں اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔
تاہم مارچ 2023 میں علاقائی حریف تصور کیے جانے والے ایران اور سعودی عرب نے حیران کن طور پر ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے۔
غزہ میں 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ نے خطے میں تناؤ میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کردیا تھا اور اپریل 2024 میں ایران نے اسرائیل پر براہ راست سیکڑوں میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے۔
اتوار کو آذربائیجان کے صدر کے ہمراہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تقریر میں ابراہیم رئیسی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیرمشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔
ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔
پچھلے مہینے اپریل میں ہی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا 3 روزہ دورہ کیا جس میں دونوں ملکوں نے باہمی تجارت 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عہد کیا۔