نئی دہلی (یو این آئی) سپریم کورٹ نے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو 2014 کے لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران اترپردیش میں مبینہ طور پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے معاملے میں ان کے خلاف کارروائی پر عبوری روک لگاتے ہوئے منگل کو راحت دی۔
جسٹس ایم ایم سندریش اور ایس وی این بھٹی کی بنچ نے مسٹر کیجریوال کی اپیل کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا اور کارروائی پر عبوری روک لگانے کا حکم دیا۔تاہم بنچ نے کہا کہ ایسے معاملات کو عدالت عظمیٰ کے ذریعہ نہیں نمٹایا جانا چاہئے۔مسٹر کیجریوال پر عوام کی نمائندگی قانون 1951 کی دفعہ 125 کے تحت انتخابات کے دوران طبقات کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کا الزام ہے۔وزیراعلی کیجریوال نے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے مسٹر کیجریوال کو سلطان پور کی ایک نچلی عدالت میں زیر التواء فوجداری معاملے میں بری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
مسٹر کیجریوال پر الزام ہے کہ انہوں نے مئی 2014 میں انتخابی مہم کے دوران کہا تھاکہ ‘میرا ماننا ہے کہ جو بھی کانگریس کو ووٹ دے گا وہ ملک کا غدار ہوگا، یہاں تک کہ بی جے پی کو ووٹ دینے والے کو بھگوان بھی معاف نہیں کرے گا۔ کانگریس ملک کو دھوکہ دے گی اور جو لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ووٹ دیتے ہیں بھگوان انہیں معاف نہیں کرے گا۔سپریم کورٹ کے سامنے اپنی عرضی میں راحت مانگتے ہوئے مسٹر کیجریوال نے کہاکہ ’’انہوں نے کسی مذہب یا ذات کا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف ایک سیاسی پارٹی کا ذکر کیا ہے۔‘‘
درخواست گزار نے دلیل دی کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 125 کے مقاصد کے لیے سیاسی جماعت کو شہریوں کے طبقے کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ کیا ان کی طرف سے مبینہ طور پر دی گئی تقریر کی کسی ویڈیو کلپ یا مکمل نقل کے بغیر دفعہ 125 کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے؟