نئی دہلی:گزشتہ روز غالب اکیڈمی،نئی دہلی میں وزارت ثقافت حکومت ہند کے تعاون سے غالب کے 227ویں یوم پیدائش کے موقع پر ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا۔پہلے مزار غالب پر گل پوشی اور فاتحہ خوانی کی گئی۔جلسے کے آغاز میں سابق وزیر اعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پرملال پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کا شمار عالمی سطح کے ماہر اقتصادیات میں کیا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان کے اعلیٰ اقتصادی عہدوں پر فائز رہے وہ دس سال تک ہندوستان کی وزیر اعظم رہے وہ ہندوستان میں اقتصادی اصلاحات کے معمار تھے۔ ان کی اصلاحات آج کام آرہی ہیں۔وہ اردو نواز تھے، جلسے کے صدر ڈاکٹر جی آر کنول نے کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے رخصت ہونے سے بہت بڑا نقصان ہوا ہے جس کی بھر پائی ممکن نہیں وہ جب بیمار ہوئے تو وہ دیوان غالب کا مطالعہ کرتے تھے۔ خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ڈاکٹر جی آر کنول نے کہا کہ غالب ایک قلندر تھا اسے اک گونہ بے خودی چا ہیے وہ دنیا کے رنج والم کو بھول جانا چاہتا تھا۔ اک گونہ بے خودی ہر کسی کو چاہیے۔غالب پوری دنیا کا شاعر تھا۔
اس موقع پر پروفیسر جانکی پرساد شرما نے غالب کی شاعری میں تصوف کے عنوان سے لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ غالب جس اونچائی اور جس انداز میں گفتگو کرتے ہیں اس میں تصوف کے اقدار کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکلتا ہے۔ ان کے جوخیالات ہیں ان کا ایک سرا تصوف سے بھی منسلک ہے۔ ان کی بہت سی باتیں صوفیائے کرام کے اقوال سے مطابقت رکھتی ہیں جگہ جگہ ان کے یہاں ہمہ اوست کی گونج سنائی دیتی ہے۔لیکن غالب اصطلاحی معنی میں صوفی نہیں تھے۔اپنی ذاتی زندگی میں وہ توحید کے نظریہ لاموجوالا اللہ پر یقین رکھتے تھے۔غالب نے اپنی تحریروں میں اقرار کیا ہے کہ نہ کبھی روزہ رکھا نہ کبھی نماز پڑھی۔ساری عمر فسق اور فجور میں گزری۔مسائل تصوف کے ساتھ ساتھ غالب نے انسان دوستی کے اظہار کا راستہ نکال لیا دراصل انسان دوستی صوفیا کی تعلیمات کی توسیع ہے۔ غالب نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ جس شہر میں رہوں اس شہر میں تو کوئی بھوکا ننگا نظر نہ آئے۔غالب موحد تھے۔درد مند تھے۔سائل ان کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔سفر کلکتہ کے درمیان غالب نے بنارس میں قیام کیا اور مثنوی چراغ دیر تحریر کی۔ بنارس کو ہندوستان کا کعبہ کہہ کر اس کے مذہبی وقار کا احترام کیا۔کعبہ اور کاشی کا خیال کسی ہندوستانی شاعر کے ذہن میں ہی آسکتا ہے۔ غرض کہ غالب نے تصوف کے خیالا ت وافکار کو ہندوستانی معاشرے کی سچائیوں کے تناظر میں اپنے تخلیقی شعور کا حصہ بنایا ہے۔
اس موقع پر مشہور مورخ پروفیسر ظہیر حسین جعفری نے اپنے لیکچر میں کہا کہ غالب اپنے معاشرے سے متاثر تھے۔وہ بادشاہ اور نوابین کے وظیفہ حاصل کرنے کی جدوجہد میں ر ہے اور نئی حکومت سے خاندانی پنشن حاصل کرنے کے لیے کلکتہ کا سفر بھی کرتے ہیں۔1819میں جامع مسجد کی مینار کی مرمت اور حوض کے پانی کو دوبارہ جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی تو مغل حکومت نے نہیں انگریزوں نے اسے درست کیا۔یہ معاشرہ تھا، کوشش کی جارہی تھی کہ انگریز غالب آ جائیں۔ہر دور میں دو متضاد تحرکیں ہوتی ہیں کچھ حکومت کا ساتھ دیتے کچھ اسے بدلنے والی طاقت کے ساتھ ہوتے ہیں۔مولانا فضل حق خیر آبادی نے انگریزوں کے پیش کار ہوتے ہوئے اس کے خلاف چلنے والی تحریک کا ساتھ دیا۔ غالب نے ذو معنی شاعری کی اور خطوط میں حقیقت بیان کی۔اس موقع پر پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ غالب کا تصوف عملی نہیں،نظری تھا۔وہ تصوف کے اسکالر تھے اپنی شاعری میں جگہ جگہ اس کا اظہار کرتے تھے۔غالب شاعری میں سوال کرتے ہیں۔ اس موقع پر متین امروہوی نے اپنا کلام پیش کیا۔ممبئی سے تشریف لائیں محترمہ اندرا نائک نے غالب کی کئی غزلیں موسیقی کے ساتھ پیش کیں۔ محفل کلام غالب کی نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب نے کی۔ اس موقع پر عربی اور اردو سیکھنے والے طلبا کو اسناد تقسیم کی گئیں۔سرد موسم اور بارش کے باوجود کثیر تعداد میں شائقین غالب موجود تھے۔ پنکج سنگھ، شری کانت کوہلی، ڈاکٹر ذکی طارق،ظہیر برنی، اظہر زئی،سید سکندر علی، روی پٹ وردھن، فضل بن اخلاق، کمال الدین، ثروت عثمانی،عبد الباری مسعود،اسرار رازی،پروین ویاس، شیخ جیلانی،عربی اور اردو کے طلبا موجود تھے۔