نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک):دنیائے ادب کا ایک اور ستارہ غروب ہوگیا۔ اپنے منفرد انداز بیاں سے حاضرین کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والے معروف اداکار، ہدایتکار، صداکار اور ٹیلی ویژن براڈ کاسٹر ضیاء محی الدین کی تدفین کراچی میں ڈیفنس فیز 4 کے قبرستان میں کردی گئی۔ روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق ان کی نماز جنازہ میں صوبائی وزیر، صحافیوں اور فنکاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ضیاء محی الدین پاکستان فلم انڈسٹری کا ایک ایسا نام ہے جس کے بارے میں کچھ بھی کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اہل خانہ کے مطابق ان کی طبیعت ناساز ہونے پر انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے اور 91 برس کی عمر میں اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر جہانی فانی سے کوچ کرگئے۔ان کی نماز جنازہ مسجد یثرب میں ادا کی گئی جس میں صوبائی وزیر سعید غنی، اداکار بہروز سبزواری، صحافیوں، اہلخانہ سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے افراد نے شرکت کی۔
ضیاء محی الدین 20 جون 1931ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ضیاء محی الدین کے والد کو پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ کےمصنف اور مکالمہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ضیاء محی الدین نے 50ء کی دہائی میں لندن کے رائل اکیڈمی آف ڈراماٹک آرٹ سے اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔1962ء میں انہوں نے مشہور فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ میں یادگار کردار ادا کیا۔ضیاء محی الدین نے ریڈیو آسٹریلیا سے صداکاری سے کام کا آغاز کیا، بہت عرصے تک برطانیہ کے تھیٹر کے لیے بھی کام کیا، برطانوی سنیما اور ہالی ووڈ میں بھی فن کے جوہر دکھائے۔وہ براڈ وے کی زینت بننے والے جنوبی ایشیاء کے پہلے اداکار تھے، 70ء کی دہائی میں انہوں نے پی ٹی وی سے ضیاء محی الدین شو کے نام سے منفرد پروگرام شروع کیا۔
ضیاء محی الدین 1973ء میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر کر دیے گئے، جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے بعد وہ واپس برطانیہ چلے گئے، 90ء کی دہائی میں انہوں نے مستقل پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ضیاء محی الدین نے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ میں کالم بھی لکھے، ان کی کتاب "A carrot is a carrot” ایک مکمل ادبی شہہ پارہ ہے۔حکومت کی جانب سے ضیاء محی الدین کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 2003ء میں ستارۂ امتیاز اور 2012ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔2004ء میں ضیاء محی الدین نے کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ کی بنیاد رکھی اور زندگی کے آخری لمحات تک اس ادارے کے سربراہ رہے۔