دمشق(ایجنسیاں)شام کے صدارتی محل میں باغیوں کے داخل ہونے کے بعد کی تصاویر سامنے آگئیں۔دمشق میں اپوزیشن جماعتوں کے جنگجو صدارتی محل میں داخل ہوتے دکھائی دیے، شامی باغی محل کے مختلف حصوں کا معائنہ کرتے اور وہاں موجود اشیاء کو قبضے میں لیتے نظر آئے۔صدارتی محل کے مناظر میں کچن، رہائشی کمرے اور دیگر حصے دکھائے گئے ہیں جہاں عام لوگ اور جنگجو خوشی کے اظہار کے ساتھ تصویریں بنوا رہے ہیں۔یہ وہی صدارتی محل ہے جہاں بشار الاسد کے خاندان نے سالوں تک اقتدار کا مرکز بنایا تھا۔شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کو محفوظ رکھنے اور اقتدار کی منتقلی کو منظم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ملک میں کوئی افراتفری نہ پھیلے۔اس بیچ یہ بھی خبر مل رہی ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد دمشق میں بشار الاسد کی رہائش گاہ میں داخل ہوئی اور لوٹ مار بھی کی۔دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر حملے کی اطلاعات سامنے آئیں جبکہ عراق نے اپنا سفارتخانہ خالی کروا دیا۔ اٹلی کے وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ ان کے ملک کے سفارتخانے میں مسلح گروپ داخل ہوا۔
خیال رہے کہ ایک ہفتہ قبل تک شام کے حکمران بشار الاسد کا تختہ اُلٹنا ناقابل تصور تھا۔ اس وقت باغیوں نے شمال مغربی شام میں ادلب کے گڑھ سے اپنی جارحانہ مہم شروع کی تھی۔یہ شام کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے والد نے 29 سال تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔
بشار الاسد کو وراثت میں ہی ایک ایسا ملک ملا تھا جہاں حکومت کا کنٹرول سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس کے بارے میں ناقدین مخالفین کو دبانے کا الزام لگاتے تھے۔ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔پہلے یہ امید تھی کہ چیزیں مختلف ہوں گی، سب کام شفافیت سے ہوں گے اور ظلم کم ہوگا۔ مگر یہ توقعات دیر تک قائم نہ رہ سکیں۔اسد کو ہمیشہ ایک ایسے آدمی کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011 میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور 60 لاکھ بے گھر۔
یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ اتوار کی صبح شام کے دارالحکومت دمشق پر باغیوں کی جانب سے قبضہ کرنے کے چند گھنٹوں بعد یہ بحث چھڑ گئی کہ بشار الاسد کہاں چلے گئے ہیں۔ معزول صدر کے اتحادی ملک روس نے اعلان کیا ہے کہ صدر بشار الاسد اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد شام چھوڑ چکے ہیں۔اتوار کی صبح شامی باغی فورسز دمشق میں داخل ہوئیں تو سرکاری فوج نے پسپائی اختیار کی یا پھر وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت مغربی ممالک شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔دریں اثناء شام کے وزیرِ اعظم محمد غازی الجلالی نے عربی خبر رساں ادارے العربیہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ملک میں آزادانہ انتخابات ہونے چاہیے۔روئٹرز کے مطابق العربیہ کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے وہ باغی رہنما ابو محمد الجولانی سے رابطے میں ہیں۔دمشق کی سڑکوں سے لے کر دنیا کے مختلف ممالک میں شامی شہریوں نے اسد خاندان کے 50 برس کے دور اقتدار کے خاتمے پر جشن منایا۔
دریں اثناء خبر ہے کہ دمشق میں مسلح گروپ نے اٹلی کے سفارتخانے کا گھیراؤ کر لیا ہے۔اب اٹلی کے وزیر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ مسلح گروپ ان کے سفیر کے گھر داخل ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے انسا کے مطابق انتونیو تیجانی نے صحافیوں کو بتایا کہ اتوار کی صبح مسلح گروپ اٹلی کے سفیر کے گھر کے صحن میں داخل ہوا۔ان کے مطابق ’یہ گروپ اپنے ساتھ تین کاریں لے کر چلا گیا۔ انھوں نے نہ تو سفیر کو اور نہ ہی ملٹری پولیس کو کچھ کہا۔‘واضح رہے کہ اس سے قبل دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر بھی حملے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ دوسری جانب عراق نے بھی دمشق میں اپنا سفارتخانہ خالی کرا دیا ہے۔
اسی درمیان روس کا کہنا ہے کہ بشارالاسد نے فریقین سے بات چیت کے بعد اقتدار سے علحیدگی اختیار کی۔ روس کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ بشارالاسد نے اپنا عہدہ اور ملک چھوڑنے سے قبل تنازع میں شریک تمام مسلح گروہوں سے بات چیت کی ہے۔ماسکو کے مطابق ان مذاکرات کے نتیجے میں بشارالاسد نے پرامن منتقلی اقتدار کی ہدایات بھی دیں۔روس کا کہنا ہے کہ وہ ان مذاکرات کا کسی بھی طور پر حصہ نہیں تھا اور یہ کہ روس کی شام میں فوجی اڈے ہائی الرٹ پر ضرور ہیں مگر انھیں کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔روس کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تمام اپوزیشن گروہوں سے رابطے میں تھے۔واضح رہے کہ روس بشارالاسد کا اہم اتحادی رہا ہے۔ اس سے قبل انھیں اقتدار میں رکھنے کے لیے ماسکو نے انھیں فوجی امداد کی بھی پیشکش کی تھی۔