نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس نیوز بیورو) دارالعلوم دیوبندکے سابق مہتہم اور جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں کے بانی مولانا غلام محمد وستانوی آج طویل علالت کے بعد اس فانی دنیا سے رخصت فرماگئے۔مرحوم کئی مہینوں سے صاحبِ فراش تھے ۔مولانا وستانوی کوایک عہد ساز شخصیت کا مالک سمجھا جاتا تھا۔انہیں ایک روشن خیال علم دین کہلانے کا بھی افتخار حاصل تھا۔جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کے بانی و مہتمم کی روشن خیالی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ان کے ذریعہ ایک میڈیکل کالج کالج بھی قائم ہوا، جو میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) سے تسلیم شدہ ہے۔
مولانا وستانوی نے 2011ء میں مختصر وقت کے لیے دار العلوم دیوبند کے مہتمم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔حالانکہ بعض روایت پرست علماء نے ان پر بعض سنگین الزامات عائد کئے تھے،جس کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند کا مسند اہتمام انہیں کچھ ہی دنوں میں چھوڑ دینا پڑا۔
مولاناغلام محمد وستانوی کا تعلق گجرات سے تھا۔جب انہیں دار العلوم دیوبند کا مہتمم بنایا گیا تھا ، تب میڈیا کے ایک سوال کے جواب کو روایتی علماء نے مولانا وستانوی کو”مودی نواز” قرار دے دیا تھا ۔
مولاناوستانوی نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ قوت الاسلام کوساڑی میں حاصل کی، جہاں انھوں نے حفظ قرآن کیا۔انھوں نے بعد ازاں مدرسہ شمس العلوم بروڈہ میں تعلیم حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے 1964ء میں دار العلوم فلاح دارین، ترکیسر، گجرات میں داخلہ لیا، جہاں انھوں نے آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اور 1972ء کے اوائل میں اپنی تعلیم مکمل کی۔1972ء کے اواخر میں وستانوی نے مظاہر علوم سہارنپور، اتر پردیش میں داخلہ لیا اور دورۂ حدیث شریف پڑھ کر 1973ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایم بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔1970ء میں دار العلوم فلاح دارین کے زمانۂ طالب علمی کے دوران، انھوں نے محمد زکریا کاندھلوی سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور 1982ء میں شیخ کی وفات تک ان سے استفادہ کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد، سید صدیق احمد باندوی سے رجوع کیا اور ان کے خلیفہ و مُجاز ہوئے۔
مولانا نے 1979ء میں جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں یہ ادارہ محدود وسائل کے ساتھ چھ طلبہ اور ایک استاد کے ساتھ مکتب کی صورت میں قائم ہوا۔ وقت کے ساتھ یہ ادارہ ترقی کرتا گیا اور اسلامی و عصری تعلیم کے امتزاج کے باعث ایک نمایاں تعلیمی مرکز کے طور پر ابھرا۔ ادارے کے بہتر انتظام کی غرض سے وہ مستقل طور پر اکل کوا منتقل ہو گئے اور تب سے مہتمم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔
یہ ادارہ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی اسکولوں، بیچلر آف ایجوکیشن اور ڈپلوما ان ایجوکیشن کالجوں کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تربیتی پروگرامز فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، ادارہ انجینئرنگ، فارمیسی اور میڈیکل کالج جیسے پیشہ ورانہ کورسز بھی پیش کرتا ہے، جنھیں میڈیکل کونسل آف انڈیا سے تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہے۔ مزید یہ کہ آئی ٹی، دفتر انتظامیہ، سلائی اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے شعبوں میں بھی تربیتی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔
وستانوی نے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کی بنیاد رکھنے اور اسے منظم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں متعدد تعلیمی اور فلاحی ادارے بھی قائم کیے ہیں۔
1998ء میں وستانوی دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
غلام محمد وستانوی 11 جنوری 2011ء کو دار العلوم دیوبند کے مہتمم منتخب ہوئے۔ اس فیصلے کو ادارے کی قیادت میں ایک اہم اصلاحی اقدام قرار دیا گیا تھا لیکن 2002ء کے گجرات فسادات کے حوالے سے ان کے ایک بیان کوبہت سے لوگوں نے متنازعہ بناڈالا اور مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوگیا۔علماء کے روایتی ٹولے نے مولانا وستانوی کے بیان کو دارالعلوم دیوبند کے روایتی نظریات سے متصادم قرار دے کر ان کے خلاف مہم شروع کردی،جس کے بعد23 جولائی 2011ء کو داخلی دباؤ اور اختلافات کے باعث وستانوی کو مجلس اہتمام سے برطرف کر دیا گیا۔
عہدے سے برطرفی کے بعد وستانوی نے کہا تھا کہ انھیں "کسی غلطی کے بغیر سزا دی گئی” اور ان کے بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا۔ ان کی برطرفی کوایک طبقہ اندرونی سیاست اور اصلاحات مخالف عناصر کی مزاحمت کا نتیجہ بھی قرار دیا تھا اوربعضوں نے اسے”خانوادہ مدنی”کی سازش بھی بتایا تھا۔