محفوظ الرحمن کی قومی و ملی خدمات کے اعتراف میں سترہواں یادگار لیکچر
نئی دہلی۔ یونائیٹڈ مسلم آف انڈیا اور عوامی ایکتا کمیٹی دہلی کے اشتراک سے غالب اکیڈمی،بستی حضرت نظام الدین نئی دہلی میں ممتاز صحافی محفوظ الرحمن کی قومی و ملی خدمات کے اعتراف میں سترہواں یادگار لیکچر بعنوان’صحافت کا محاسبہ‘ پدم شری پروفیسر اختر الواسع کی صدارت میں منعقد ہوا۔اس تقریب میں مہمانان خصوصی کے طور پر سینئر صحافی معصوم مراد آبادی،مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن ڈاکٹر قاسم رسول الیاس اورسنیئر صحافی جلال الدین اسلم نے شرکت کی۔اس دوران سنیئر صحافی جلال الدین اسلم کی تصنیف’ اوراق زندگی ‘( آپ بیتی ) کا اجراء بھی عمل میں آیا۔
پروگرام کے دوران سینئرصحافی جلال الدین اسلم کی تصنیف’ اوراق زندگی‘ کا اجراء بھی عمل میں آیا
اس موقع پرسنیئر صحافی ومصنف ڈاکٹر ابھے کمارنے خصوصی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آزاد ہندوستان میں اگر دہلی کی اردو صحافت کی بات ہوگی تو محفوظ الرحمن کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آپ نہ صرف اردو بلکہ ہندی ،انگریزی میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔انہوں نے بہت سارے اخبارات کے ساتھ کام کیا مگر ان کی پہچان ’ قائد‘ ’ لکھنؤ‘اور ’دعوت ‘نئی دہلی کی وجہ سے زیادہ بنی۔ابھے کمار نے کہاکہ محفوظ الرحمن نے اپنی چار دہائیوں کی صحافتی زندگی میں اصولوں کے ساتھ سمجھوتا نہیں کیا۔میں اپنے آپ کو خوش قسمت محسوس کررہا ہوں کہ مجھے محفوظ الرحمن جیسے بڑے صحافی کو یاد کرنے کا موقع ملا۔ان کو یاد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کی تحریروں کو پڑھیںاور ان کے مشن کو آگے بڑھائیں۔
ابھے کمار نے موضو ع پربات کرتے ہوئے کہاکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جس کا آئین اظہار رائے کو بنیادی حقوق کا درجہ دیتا ہے،وہاں میڈیا کی ساکھ پربڑے سوالات اٹھ رہے ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ آخر کیوںاکثریتی آبادی جو دلت،اقلیتی،آدی واسی پسماندہ طبقات او ر خواتین ہیں ،ان کا بھروسا میڈیا سے کم ہورہا ہے؟آخر کیوں جو میڈیا دن رات جمہوریت کی بات کرتا ہے اس کے نیوز روم کا ماحول غیر جمہوری ہے ؟کیوںاس ملک کے میڈیا کی پوزیشن غریب ممالک کے میڈیا سے بھی بد تر ہوتی جارہی ہے؟ کیا یہ بات ہمارے ملک کے میڈیا کے لیے لمحہ فکر یہ نہیں ہے ؟
ابھے کمار نے کہاکہ موجودہ دور میں ایمرجنسی نافدنہیں ہے ،مگر میڈیا ایمرجنسی کے دو ر سے بھی زیادہ خوف زدہ ہے اور حکومت کی گود میں بیٹھ گیا ہے ،گزشتہ برسوں سے میڈیا یک طرفہ خبریں دکھا کر ایک طبقے کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے۔ نفرت انگریز خبریں بے روک ٹوک شائع ہورہی ہیںاور بے لگام میڈیا کو لگام لگانے میں عدالتیں اور پریس کائونسل ناکام ثابت ہورہے ہیں۔نیوز چینلوں کا تجزیہ کریں تو ایک دن میں 10میں سے 8 خبریں حکومت کی تعریف کے لیے بنائی جاتی ہیں،وہیں 2 خبریں حزب اختلاف کی ناکامیوں کو ظاہر کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ میڈیا کا کام عوا می مسائل کو سامنے لانا ہے۔مگر موجودہ دورمیں میڈیا ہائوسز کو بڑی بڑی کمپنیاں خرید رہی ہیں۔وہ لوگ مسلسل میڈیا کی آواز کو دبا رہے ہیںاور محروم طبقات کے لوگ نیوز روم سے باہر رکھے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ دور میں جہاں اخبارات کے مالکان کی تنخواہیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، وہیں صحافیوں کی تنخواہیں کم ہورہی ہیں،اگر کوئی صحافیوں کے حقوق کے لیے یونین بنانے کی بات کرتا ہے تواس کو دبایا جارہا ہے۔ابھے کمار نے کہاکہ مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل کو خبروں میں جگہ نہیں مل رہی ہے جبکہ میڈیا کا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ حاشیہ پر رہنے والے لوگوں کی آواز بنے۔ ابھے کما ر نے کہاکہ ان بگڑتے ہوئے حالات کو بچانے کے لیے ہمیں آگے آنا ہوگااور چراغ جلانا ہوگا۔
معصوم مرادآبادی نے کہا کہ موجودہ دورمیں جب میڈیا مسلسل جھوٹ بول رہا ہے اور اپنے قارئین کو گمراہ کرنے کو کشش کر رہا ہے تو ہمارے درمیان ابھے کمار جیسے لوگ سچ روشنی سے اس گمراہی اور اندھیرے کو دورکر رہے ہیں۔ قاسمی رسول الیاس نے کہا کہ اس موضوع پر ڈاکٹر ابھے کمار کا مقالہ بہت اہم ہے ،عام طور پر جمہورت میں صحافت کو چوتھا ستون کہاجاتا ہے لیکن موجودہ دورمیں اب صحافت آزاد نہیں رہی۔ صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ میں ڈاکٹر ابھے کمار کے جذبے اور ان کی سوچ کا احترام کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ جب تک ابھے کمار جیسے لوگ موجود ہیں تب تک کوئی اردو کو مسلمانوں کی زبان نہیں کہہ سکتا۔اس سے قبل تقریب کا آغاز حکیم مرتضیٰ دہلوی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔نظامت کے فرائض عمیر منظر نے انجام دیئے ،معروف شاعر متین امرہوی نے اپنے کلام کے ذریعہ مرحوم محفوظ الرحمن کو خراج عقیدت پیش کیا پروگرام کی کامیابی میں یونائیٹڈ مسلم آف انڈیا کے کنوینر ڈاکٹر سید احمد خان ،عوامی ایکتا کمیٹی دہلی کے کنوینر ڈاکٹر ابوزید کے علاوہ محمد عمران قنوجی، محمد اویس، حکیم عطاالرحمن پیش پیش رہے۔ اس موقع پر مختلف علم و فنون سے وابستہ لوگ کثیر تعداد میں موجود رہے۔