علی گڑھ : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام ’’ہندوستانی انگریزی شاعری: تورو دت سے واناول کے روی تک‘‘ موضوع پر دو روزہ قومی کانفرنس کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچی ۔ کانفرنس میں ہندوستان کے انگریزی شعراء کی متنوع تخلیقی خدمات کا جشن منایا گیا،اور ہندوستانی احساسات کے اظہار کے ساتھ ہندوستانی انگریزی شاعری کو علمی وقار عطا کرنے پر زور دیا گیا۔
اختتامی سیشن کی مہمان خصوصی، اردو و انگریزی کی شاعرہ ڈاکٹر زویا زیدی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زبان بذات خود ایک ثقافت ہے نہ کہ صرف رابطے کا ذریعہ۔ انھوں نے اپنی کچھ نظمیں سنائیں جس میں ’دی بیز اناؤنسمنٹ‘ ، ’لائف اِز این اوشیئن ڈیپ اینڈ وائڈ‘ اور اردو کی نظم ’’آئیے بیٹھئے‘‘ شامل تھی۔ اس سیشن کے اختتام پر کانفرنس کی کنوینر پروفیسر منیرہ ٹی نے شکریہ ادا کیا ۔ قبل ازیں صدر شعبہ پروفیسر محمد عاصم صدیقی نے خیرمقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے مہمان خصوصی ڈاکٹر زویا زیدی کا تعارف کرایا۔
پلینیری سیشن میں پروفیسر امینہ قاضی انصاری نے ہندوستانی انگریزی شعریات کے ارتقائی سفر پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے انگریزی شاعری میں پائے جانے والے مخصوص ہندوستانی تجربے اور حس کا ذکر کیا اور کہا کہ عہد حاضر کی شاعری کا مطالعہ دو طریقوں سے کیاجا سکتا ہے جس میں ہندوستانی شعریات کی تفہیم اور تجزیہ کے لئے مخصوص میتھڈ و اسلوب شامل ہیں۔ پروفیسر قاضی نے ہندوستانی تجربے اور شناخت کے ذیلی موضوع کی طرف توجہ مبذول کر اتے ہوئے کہا کہ ادب صرف آئینہ ہی نہیں، بلکہ یہ ذہن کا ایک نقشہ اور جغرافیہ بھی ہے۔کنیڈیائی اسکالر کی استعمال کردہ اصطلاح ’ڈیشکیپ‘ کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ قوم ایک تاریخی تصور ہے جو روایت، ثقافت اور نظریات سے ابھرتا ہے۔ انھوں نے نسیم ایزیکیل کی نظم ’گڈ بائی پارٹی فار مس پشپا ٹی ایس‘ اور دیگر نظموں سے مثالیں بھی پیش کیں۔پروفیسر قاضی نے ساحر لدھیانوی کی اردو نظم ’چاند مدھم ہے، آسماں چپ ہے‘ کے دو تراجم میں فرق کو واضح کرتے ہوئے ترجمہ کے فن پر بھی بات کی۔انھوں نے ہندوستانی انگریزی شعری روایات اور ادبی تاریخ کو علاحدہ شناخت دینے پر زور دیا۔پروفیسر محمد عاصم صدیقی نے ’ہندوستانی انگریزی شاعری کا جشن‘ موضوع پر مسٹر واناول کے روی، پروفیسر رانو انیال پنت، اور پروفیسر سمیع رفیق کے ساتھ ایک مکالمہ میں حصہ لیا۔ مسٹر روی نے اس موقع پرکہا کہ ’شاعری ان کے لئے ایک فطری عمل ہے اور زبان ثانوی شئے ہے‘۔اپنے کلیدی خطاب میں بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر، نقاد، مترجم اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سکریتا پال کمار نے کہاکہ انگریزی میں ہندوستانی شاعری تخلیق کرنے کے لئے سرحد یا کنارے پر ہونا (Liminality) ایک بنیادی شرط ہے۔ انھوں نے کہا کہ مختلف ثقافتوں کا حامل ہونے سے دو یا زائد زبانوں میں شعر تخلیق کرنا ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ ڈین، فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر عارف نذیر نے شعبہ انگریزی کو ہندوستانی انگریزی شاعری پر کانفرنس منعقد کرنے کے لئے مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ شاعری زندگی کا نچوڑ ہے ۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر چند اشعار بھی سنائے۔کانفرنس میں آٹھ متوازی سیشن منعقد ہوئے جن میں ملک بھر سے تقریباً 50 معززین نے شرکت کی۔ کانفرنس میں الگ الگ موضوعات پر 45 سے زائد تحقیقی مقالے پیش کیے گئے اور ہندوستانی تخلیقات بالخصوص ہندوستانی انگریزی شاعری کے مختلف پہلوؤں کو موضوع گفتگو بنایا گیا۔کانفرنس کے شریک کنوینر ڈاکٹر ثاقب ابرار نے کانفرنس کی رپورٹ پیش کی، جس کے بعد شرکاء میں اسناد تقسیم کی گئیں۔