دی ھیگ: اسلام مخالف ڈچ لیڈر گیرٹ وائلڈرز نے نیدر لینڈز میں حیران کن کامیابی حاصل کرلی۔اس درمیان خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق مسلم اور مراکشی باشندوں کی تنظیموں نے ولڈرز کی جیت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ ان کے ماضی میں دیے جانے والے بیانات بتائے جاتے ہیں۔دائیں بازو کے سیاست دان ولڈرز ماضی میں مساجد اور قرآن پر پابندی کے مطالبات کرتے رہے ہیں۔واضح رہے کہ نیڈرلینڈز کی کل آبادی ایک کروڑ 80 لاکھ ہے جس میں پانچ فی صد مسلمان ہیں۔ نیدرلینڈز میں مسلمانوں کی تنظیم (سی ایم او) کے عہدے دار محسن کوکٹاس کہتے ہیں کہ "یہ انتخابی نتائج ڈچ مسلمانوں کے لیے چونکا دینے والے ہیں، ہمیں توقع نہیں تھی کہ وہ پارٹی جو قانون کی حکمرانی کے بنیادی اُصولوں کی نفی کرتی ہو، ایسی کامیابی حاصل کر لے گی۔”
دی ہیگ کے کثیر النسل علاقے کے کمیونٹی ورکر عبدالصمد طاہری نےانتخابات میں ورلڈرز کی کامیابی پر کہا کہ یہ ہمارے لیے ایک دھچکا ہے جسے ہمیں ہضم کرنا پڑ رہا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ انتخابات میں ووٹرز نے جہاں سبک دوش وزیرِ اعظم مارک روتاہ کی 13 برس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے تو وہیں ووٹرز نے غیر ملکیوں اور مسلمانوں کو بھی ایک طرح سے پیغام دیا ہے۔
واضح رہے کہ سبک دوش ہونے والے وزیرِاعظم مارک روتاہ کی جماعت پیپلز پارٹی فار فریڈم اینڈ ڈیموکریسی (وی وی ڈی) صرف 24 نشستیں ہی حاصل کر سکی ہے۔گو کہ ولڈرز نے انتخابات میں کامیابی کے بعد یقین دلایا ہے کہ وہ تمام ڈچ عوام کے وزیرِ اعظم ہوں گے، تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ یہ یقین دہانیاں ان خدشات کو دُور نہیں کریں گی کہ وہ اقتدار میں آ کر کیا کر سکتے ہیں۔اکتالیس سالہ انسولیشن ورکر مہدی کوچ کہتے ہیں کہ "اگر آپ ولڈرز کی اب ہاں میں ہاں ملائیں گے تو پھر بعد میں بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا جب وہ مساجد بند کریں گے کیوں کہ اس وقت پھر آپ پیچھے نہیں ہٹ سکیں گے۔”
لیکن ان تحفظات کے باوجود بعض ڈچ ماہرین کہتے ہیں کہ مخلوط حکومت کی سربراہی کی صورت میں ولڈرز کو اپنے خیالات پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔نیدرلینڈز کی”ڈی اسلامائزیشن” یعنی اسلامی اثرات کم یا ختم کرنے کا وعدہ بھی ولڈرز کے انتخابی منشور میں شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں کوئی مسجد یا اسلامی اسکولز نہیں چاہتے۔اس کے برعکس حالیہ انتخابات کے لیے اپنی مہم میں ولڈرز نے ترکِ وطن کرنے والوں کو روکنے، ضروریاتِ زندگی کے بحران اور مکانات کی قلت جیسے مسائل کو حل کرنے پر زیادہ زور دیا تھا۔
انتہائی دائیں بازو کے رہنما کی جماعت پارٹی فار فریڈم حکومت سازی کے لیے اتحاد قائم کرنے کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔اٹھانوے فیصد شمار ووٹوں کے مطابق گیرٹ ویلڈرز کی جماعت کو 150 میں سے 37 نشستیں مل گئیں، وی وی ڈی اور نیوسول کنٹریکٹ سے اتحاد ہوا تو ان کی81 نشستیں بن جائیں گی۔غیرملکی میڈیا کے مطابق گیرٹ ویلڈرز کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ انتہاپسند ویلڈرز کی فتح نے یورپ بھر میں خطرے کی گھنٹی بجادی ہے، دائیں بازو کی جماعتوں کے یورپ میں مضبوط ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
وائلڈرز 1963 میں نیدرلینڈز کے شہر فینلو میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے خاندان کا تعلق رومن کیتھولک فرقے سے ہے لیکن وہ خود کو غیر مذہبی قرار دیتا ہے۔ گیرٹ وائلڈرز قرآن پر پابندی لگانے، اسلام مخالف فلم بنانے اور مسلمان تارکینِ وطن کو نیدرلینڈز سے نکالنے کی مہم چلانے جیسے متنازع کاموں میں ملوث رہ چکا ہے۔ گیرٹ وائلڈرز کی کوشش رہے گی کہ وہ اتحادی حکومت میں دیگر جماعتوں کو شامل ہونے کی دعوت دیں۔ 150 سیٹوں کے پارلیمان میں وہ کم از کم 76 نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
60 سال کے وائلڈرز نے جارحانہ انداز میں اپنی فتح کا اعلان کیا ’ہم حکومت بنانا چاہتے ہیں اور۔۔۔ ہم حکومت بنائیں گے۔ (یہ نشستیں) بڑی فتح ہے مگر ساتھ اس سے ایک ذمہ داری بھی پیدا ہوتی ہے۔‘
انتخابات سے قبل دیگر تین بڑی جماعتوں نے وائلڈرز کے ساتھ حکومت بنانے کے امکانات کو مسترد کیا تھا مگر یہ مؤقف اب تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین کے سابق کمشنر فرانس ٹمرمینز کی زیرِ قیادت بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد 25 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ انھوں نے وائلڈرز کی حکومت میں شمولیت سے انکار کیا تھا۔
ٹمرمینز نے اپنے حمایتیوں سے کہا کہ یہ ڈچ جمہوریت اور رول آف لا کے دفاع کا وقت ہے: ’ہم نیدرلینڈز سے کسی کو جانے نہیں دیں گے۔ نیدر لینڈز میں سب برابر ہیں۔‘
تیسری پوزیشن پر دائیں بازوں کی طرف جھکاؤ والی سینٹر رائٹ لبرل جماعت وی وی ڈی ہے جس کی سربراہ ترک تارک وطن پس منظر رکھنے والی خاتون دیلان یشیلگوز ہیں جبکہ رکن پارلیمان پیتر اومتزگ کی نئی جماعت چوتھے نمبر پر ہے۔
فریڈم پارٹی کے رہنما وائلڈرز نے سیاسی حریفوں کے ساتھ کام کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ یشیلگوز اور اومتزگ دونوں نے انھیں اس کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔
یشیلگوز کو لگتا ہے کہ وائلڈرز کے پاس نشستوں کی تعداد اتنی نہیں ہوسکے گی کہ وہ حکومت بنا سکیں۔ انھوں نے کہا کہ اب ان کی جماعت کے رہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ کیا ردعمل دیتے ہیں۔ انھوں نے الیکشن سے قبل اصرار کیا تھا کہ وہ وائلڈرز کی کابینہ میں کام نہیں کریں گی لیکن انھوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر وہ جیت جاتی ہیں تو وہ وائلڈرز کے ساتھ کام نہیں کریں گی۔اومتزگ نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ ’نیو سوشل کنٹریکٹ پارٹی‘ وائلڈرز کے ساتھ کام نہیں کرے گی لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ ’ووٹروں کے اعتماد کو اقدام میں بدلنے کے لیے دستیاب ہیں۔‘