پروفیسر یونس نے بطور چیف ایڈوائزر حلف لیا
ڈھاکہ،8 اگست ( یواین آئی ) بنگلہ دیش میں بغاوت اورشیخ حسینہ کے استعفیٰ کے بعد ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی ہے۔نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس نے جمعرات کی شام بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے طور پر حلف اٹھایا۔ گن بھون کے دربار ہال میں منعقدہ ایک تقریب میں یونس اور نئی عبوری حکومت کے ارکان کو بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے عہدے اور رازداری کا حلف دلایا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں پروفیسر محمد یونس چیف ایڈوائزر، بنگلہ دیش انوائرمنٹ لائرز ایسوسی ایشن (بی ای ایل اے) کی چیف ایگزیکٹیو سیدہ رضوانہ حسن، خواتین کے حقوق کی کارکن محترمہ فریدہ اختر، اودھیکار کے بانی عادل الرحمن خان، اے ایف این خالد حسین، حفاظت اسلام کے نائب امیر اور اسلامی تحریک بنگلہ دیش کے مشیر، نورجہاں بیگم رورل ٹیلی کام ٹرسٹی،مجاہد آزادی شرمین مرشد اور سی ایچ ٹی بی کے چیئرمین سپردیپ چکمہ ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ بنانے کا مطالبہ بنگلہ دیش کی طلبہ تنظیموں نے اٹھایا تھا۔ انہوں نے فوج سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ کسی اور کو سربراہ بنانا قبول نہیں کریں گے۔ ایسی صورت حال میں بیرون ملک مقیم ڈاکٹر یونس جمعرات کی سہ پہر بنگلہ دیش پہنچے اور ڈھاکہ ایئرپورٹ پر مسلح افواج کے سربراہ، سول سوسائٹی کے ارکان اور طلبہ رہنماؤں سے ملاقات کی۔
اس درمیان خبر ہے کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کے دونوں ڈویژنوں میں تمام عدالتی کارروائی اگلے نوٹس تک معطل رہے گی۔’دی ڈیلی اسٹار’ نے جمعرات کو یہ اطلاع دی۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کے پبلک ریلیشن آفیسر نے تمام عدالتی کارروائیوں کو اگلے نوٹس تک ملتوی کرنے کے حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بدھ کو صدر محمد شہاب الدین سے مشاورت کے بعد تمام عدالتی کاموں کی معطلی سے متعلق ہدایت جاری کی۔ معطلی اگلے نوٹس تک نافذ رہے گی۔
ذہن نشیں رہے کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی سے غیر حاضری کی وجہ سے شہر کے مختلف حصوں سے انتشار اور ڈکیتی کی وارداتیں سامنے آ رہی ہیں جبکہ شہریوں کو رات بھر چوکس رہنا پڑتا ہے۔
ڈیلی اسٹار کی خبر کے مطابق، بدھ کی رات ڈھاکہ کے مختلف حصوں میں پولیس کی غیر موجودگی میں ڈکیتی کے واقعات کی وجہ سے، رہائشی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے رات بھر سڑکوں پر رہے۔ اترا، دھان منڈی، محمد پور، میرپور اور ڈھاکہ کے پرانے حصے کے لوگ رات بھر جاگتے رہے اور صبح ہی اپنے گھروں کو لوٹے۔ میرپور، پلوبی، اترا اور محمد پور کے بعض علاقوں میں فوج کے جوانوں کو سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا، جب کہ ڈکیتی کے دوران بہت سے لوگوں نے پڑوسیوں سے مدد مانگی۔
ای سی بی چتر کے علاقے کے ایک رہائشی نے بتایا کہ بدھ کی رات مختلف عمر کے ڈاکو چھریوں اور چاقوں کا استعمال کرتے ہوئے کئی گھروں میں داخل ہوئے۔ فوجی جوانوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر علاقے سے کچھ نوجوانوں کو ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کیا۔ اس دوران کیرانی گنج کے محمد پور، اٹی بازار، واشپور، ارشی نگر اور اترا علاقوں میں لوٹ مار کی اطلاع اور ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیل چکے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ان علاقوں کی مساجد سے اعلانات کیے گئے اور ہر کسی کو چوکنا رہنے کی تاکید کی گئی۔ عرشی نگر کے رہائشی محمد فیصل نے بتایا کہ ڈاکو ان کے علاقے میں داخل ہو گئے ہیں جس کے بعد مساجد کو الرٹ رہنے کی وارننگ جاری کر دی گئی۔ "ہم گھبرا گئے تھے،” فیصل نے کہا۔ محمد پور کے ایک رہائشی نے بتایا کہ نصف شب کے قریب ڈاکو مختلف سمتوں سے علاقے میں داخل ہوئے تاہم لوگ لاٹھیاں لے کر گھروں سے اتر آئے اور ڈاکوؤں کا پیچھا کیا۔ ایک اور رہائشی نے کہا کہ یہ صورت حال جاری نہیں رہ سکتی اور پولیس کو اپنا کام شروع کرنا چاہیے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
قابل ذکر ہے کہ محترمہ شیخ حسینہ کے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں کے دوران ان پر ہونے والے حملوں کے بعد پولیس اہلکار ابھی تک کام پر واپس نہیں آئے ہیں۔ حملوں کے دوران کئی پولیس اہلکار مارے گئے، جب کہ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار غیر مسلح لوگوں کو قریب سے قتل کرتے ہیں۔
نئے تعینات ہونے والے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) محمد معین الاسلام نے تمام پولیس اہلکاروں کو ہدایت کی کہ وہ امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے متعلقہ پولیس لائنز، دفاتر اور بیرکوں میں واپس جائیں۔ بنگلہ دیش پولیس نے کہا ہے کہ مختلف طبقوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد، سیاسی جماعتوں کے رہنما، طلباء اور عام لوگ پولیس اہلکاروں کو بحفاظت اپنے کام کی جگہ پر واپس جانے کے لیے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔