نئی دہلی، 07 اگست ( یو این آئی ) حکومت نے کہا ہے کہ وقف ترمیمی بل غریبوں اور تمام مسلمانوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے لایا گیا ہے اور اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو اربوں روپے کی مالیت کی وقف املاک کا غلط استعمال رک جائے گا اور غریب مسلمانوں کو اس کا فائدہ پہنچے گا اقلیتی بہبود کے وزیر کرن رجیجو نے وقف (ترمیمی) بل 2024 لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اراکین سیاسی دباؤ کی وجہ سے اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ بل سب کے مفاد میں ہے اور اس سے عوام کو فائدہ ہوگا ۔ بل میں کی گئی کئی شقوں میں ترمیم سے آئین کے کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اس میں کسی کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ اس بل کے ذریعے جن کو حقوق نہیں دیے گئے ان کو حقوق دیے گئے ہیں۔ یہ بل وقف بورڈ میں خواتین کی رکنیت کو لازمی قرار دیتا ہے اور اس میں ہر مسلم کمیونٹی کی خواتین کو شامل کیا جائے گا۔
مسٹر رجیجو نے کہا کہ ان کی حکومت یہ بل پہلی بار نہیں لائی ہے۔ حکومت نے 1995 میں جو وقف بل لایا تھا وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ وہ بل جس مقصد کے لیے لایا گیا تھا اس میں مکمل طور پر ناکامی ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیا بل بہت غوروفکر کے بعد لایا گیا ہے اس لئے سب کو اس بل کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ اس سے کروڑوں لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے ۔ اس بل کی مخالفت کرنے سے پہلے کروڑوں غریب مسلمانوں کے بارے میں سوچیں اور پھر مخالفت کریں۔ اس مسئلہ پر کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور وقف ایکویٹی رپورٹ پیش کی گئی۔ تمام وقف املاک کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ٹریبونل ہونا چاہیے اور آڈٹ اور اکاؤنٹس کا نظام بہتر ہونا چاہیے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ کانگریس کے دور اقتدار میں وقف پر دو کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ سچر کمیٹی نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ وقف بورڈ کی جائیداد سے بہت کم رقم حاصل ہو رہی ہے اور اگر اس جائیداد کا صحیح انتظام کیا جائے تو اس سے سالانہ 12 ہزار کروڑ روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ سچر کمیٹی نے کہا کہ وقف بورڈ میں ماہرین کو شامل کئے جانے کی ضرورت ہے اور اس کے پیسے کی آمدنی کا ریکارڈ ہونا چاہئے۔ مسٹر رجیجو نے کہا کہ نئے قانون میں مکمل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بل لایا گیا ہے اور یہ بل اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے لایا گیا ہے کہ وقف املاک سب کی ملکیت بن جائے اور اس کا غلط استعمال نہ ہو۔ نئے بورڈ میں خواتین کی نمائندگی کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس میں مسلمانوں کے تمام طبقات کو شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے کے قانون میں ایک شق تھی کہ اگر آپ نے اپنی زمین پر اپنا حق نہیں مانگا تو وہ زمین ہتھیا لی جاتی تھی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ کسی زمین کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اس زمین پر کسی کے گھر والوں نے نماز پڑھی ہے تو وقف بورڈ 1995 کے قانون کے تحت اس زمین کو اپنے قبضے میں لے لے گا اور اس قانون میں یہ بہت بڑی خامی ہے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ حکومت اس ترمیمی بل کے ساتھ اچانک نہیں آئی ہے۔ اس پر مسلمانوں کے تمام طبقات کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا ہے اور پارلیمنٹ کے بہت سے اراکین کا ذاتی طور پر یہ ماننا ہے کہ اس بل کے متعارف ہونے سے وقف میں بدعنوانی رک جائے گی۔ وقف بورڈ کے مسائل پر وسیع پیمانے پر بحث ہوئی ہے اور اس کے بعد بل تیار کیا گیا ہے۔ یہ بل ہر ریاست کے شیعہ، سنی، احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے لوگوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے لایا گیا ہے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ وقف بورڈ کی صورتحال ایسی ہے کہ تمل ناڈو کے ایک گاؤں کی تاریخ سینکڑوں سال پرانی ہے لیکن بورڈ نے پورے گاؤں کو وقف بورڈ کی ملکیت قرار دے کر گاؤں کے لوگوں کو ان کے آباؤ اجداد کی زمین سے بے دخل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوال کسی خاص مذہب کا نہیں ہے بلکہ یہ غلط کو درست کرنے کی قانونی کوشش ہے اور اس بل کی منظوری سے اس طرح کی ناانصافی کو روکا جائے گا۔ کرناٹک وقف بورڈ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں کروڑوں کی جائیداد کو تجارتی استعمال کے لیے تبدیل کیا گیا ہے ۔ اس طرح کی من مانی کو روکنے کے لیے حکومت یہ بل لائی ہے۔
مسٹر رجیجو نے کہا کہ کوئی بھی شخص کسی بھی جائیداد کو وقف جائیداد قرار دے سکتا ہے۔ وہ کسی بھی جائیداد کو خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، کو وقف جائیداد قرار دے سکتا تھا اور یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال تھی جسے بدلنے کی اشد ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ میں 90 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں اور ان تمام تفاوتوں کے پیش نظر یہ بل عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ نئے بل میں کیس نمٹانے کا وقت چھ ماہ مقرر کیا گیا ہے۔
قبل ازیں بل کے پیش ہونے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے شیوسینا کے ایکناتھ شندے نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں نے یہ بھرم پھیلا کر لوک سبھا انتخابات جیت لیے ہیں کہ ملک میں آئینی بحران ہے اور اب وہ انتشار پھیلا رہے ہیں۔ اس بل کے بارے میں کانگریس کے گورو گوگوئی نے کہا کہ یہ قانون مذہب اور عقیدے سے متعلق ہے۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔