نئی دہلی: ”رام نومی تہوار کے موقع پر ملک بھر میں ہونے والے فرقہ وارانہ پر تشدد واقعات کی جماعت اسلامی ہند سخت مذمت کرتی ہے۔ مذہبی جلوس کی آڑ میں تشدد کا راستہ اختیار کرنا کسی بھی مذہب کے لئے انتہائی پریشان کن ہے۔کیونکہ مذہبی تہواروں اور جلوسوں کا مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کو فروغ دینا ہوتا ہے۔اگر ان کا استعمال ملک کے امن کو خراب کرنے کے لئے کیا جاتا ہے تو یہ انتہائی قابل مذمت ہے، اس کی روک تھام بہر صورت ہونی چاہئے۔ مذہبی رہنماؤں کو بھی اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔انہیں اس رجحان کے خلاف کھل کر سامنے آنا چاہئے اور اپنے پیروکاروں پر زور دینا چاہئے کہ وہ مذہبی تہواروں، جلوسوں و دیگر مذہبی سرگرمیوں کوسماج دشمن عناصر کے ذریعے استعمال ہونے سے بچائیں“۔
یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کہی۔انہوں نے کہا کہ ”راجستھان ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے میں 2008 کے جے پور بم دھماکوں کے ملزمین کو بری کئے جانے کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس فیصلے سے کچھ اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ بم دھماکے کا جنہیں ملزم بنایا گیا، وہ تو عدالت سے بے گناہ قرار دیئے جاچکے ہیں تو پھر دھماکے کے اصل مجرمین ابھی تک کہاں فرار ہیں؟ حکومت ان مجرموں کا سراغ لگانے کے لئے کوئی نئی ٹیم تشکیل دے، تاکہ دھماکے میں مرنے والوں کے لواحقین کو انصاف مل سکے اور بری ہونے والے افراد کو مناسب معاوضہ دیا جائے۔کیونکہ جھوٹے مقدمات کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی پندرہ برس جیل میں گزار دیئے۔یہی نہیں، ان کے اہل خانہ نے ان برسوں میں ”دہشت گردوں کا خاندان“ جیسی تہمت کا ذہنی کرب برداشت کیا ہے“۔پروفیسر سلیم نے میڈیا کی آزادی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”ملیالم نیوز چینل ’میڈیا ون‘ کو نشریاتی لائسنس کی تجدید سے انکار کرنے کے مرکز کے حکم کو سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے مسترد کئے جانے کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ کیرالہ میں قائم یہ ٹی وی چینل بے زبانوں کی زبان اور مظلوموں اور پسماندہ لوگوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لئے مشہور ہے۔حکومت نے ’میڈیا ون‘کو سیکورٹی کلیئرنس نہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ چینل اینٹی اسٹیبلشمنٹ خبریں نشر کررہا ہے۔ مگر عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں یہ کہہ کر کہ ” چینل کو محض اس لئے ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی ہے“ صحافت کی آزادی کواجاگر کردیا۔جماعت اسلامی ہند امید کرتی ہے کہ حکومت آزادی صحافت پر قدغن لگانے سے باز رہے گی اور اپنی پالیسیوں اور فیصلوں پر تعمیری تنقید کا خیر مقدم کرے گی“۔”اڈانی، ہڈن برگ رپورٹ پر بحث کرنے میں حکومت کی ہچکچاہٹ پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ ”اس رپورٹ کے نتیجے میں لاکھوں کروڑ مالیت کے اسٹاک ویلیوایشن کا نقصان ہوا۔ اڈانی واقعہ نے ہمارے ریگولیٹری اداروں اور ہمارے آڈیٹرز کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے“۔ حکومت کو مباحثے کے ذریعہ واقعہ کی شفافیت کوواضح کردینا چاہئے۔”انتخابی بانڈزپر بات کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمرز کی رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔یہ انتخابی بانڈ خفیہ ہیں مگر وہ سرکاری ملکیت والے بینک ”ایس بی آئی“ کے ذریعے فروخت کئے جاتے ہیں۔ اس سے برسر اقتدار کے لئے یہ جاننا بہت آسان ہوگیا ہے کہ اپوزیشن کو کون فنڈنگ کررہا ہے۔ تاہم فنانس ایکٹ 2017 میں ترمیم کرکے حکومت نے سیاسی جماعتوں کو الیکٹورل بانڈز کے ذریعے ملنے والے عطیات کو ظاہر کرنے سے استثنیٰ دے دیا ہے۔ اس طرح اب ووٹرز کو یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ کس فرد، کمپنی یا تنظیم نے کس پارٹی کو کس حد تک فنڈ فراہم کیا ہے۔ انتخابی سیاست میں غیر شفاف طریقے پر پیسے کی یہ حصہ داری ہماری جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے۔ کانفرنس میں نیشنل میڈیا سکریٹری سید تنویر احمد اور انڈیا ٹومارو کے چیف ایڈیٹر سید خلیق احمد نے بھی شرکت کی۔