لکھنؤ:یکساں سول کوڈ کے سلسلہ میں انڈین نیشنل لیگ کے صوبائی صدر حاجی فہیم صدیقی نے بیان جاری کر تے ہو ئے کہا کہ برٹش دور میں 1937 میں شریعت ایپلیکشن ایکٹ پاس ہواتھا ۔ جس میں مسلم پرسنل لاء آئین کا حصہ بنا اکثریت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء نے کسی قسم کی تر میم و تبدیلی نہیں کی جائے گی ۔ جس کا باقاعدہ اعلان کانگریس نے 1938 ء میں ہری پور میں کیا تھا ۔ وقتا ً فوقتاً یونیفارم سول کوڈ کی بات اٹھتی رہی ہے ۔ اکیسویں لاء کمیشن کی سر وے رپورٹ میں صاف طور سے کہا گیا تھا کہ ملک کو یونیفارم سول کوڈ کی کو ئی ضرورت نہیں ہے ۔ یو سی سی کے لئے ماحول سازگار نہیں ہے ۔ اس کے بعد لا ء کمیشن کو عوامی رائے کی ضرورت نہیں تھی ۔ لیکن اب بائیسویں لاء کمیشن نے پھر رائے عامہ کی کیا ضرورت پڑ گئی ۔ 27 جون 2023 کو مدھیہ پردیش کے بھوپال میں وزیرا عظم نریندر مودی نے اعلان کر دیا کہ ملک میں یونیفارم سول کوڈ لاگو کریں گے ۔ سوال پیدا ہو تا ہے کہ وزیراعظم کس چیز میں یکسانیت چاہتے ہیں ؟وہ کیا نافذ کرنا چاہتے ہیں ؟بی جے پی نو سال اقتدار مکمل ہونے کے بعد اچانک یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑنا کیا 2024 کے چنائو میں ہندو ووٹ کاپولرائزیشن چاہتے ہیں ؟ ان کے اس اعلان سے ملک کے عوام میں بے چینی ہے ۔عام لوگوں میں ، ٹی وی چینل پر ، پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں بحث چھڑی ہو ئی ہے سبھی اندھیرے میں کہیں ہوا میں تیر چلا رہے ہیں ۔ کیوں کہ وزیر اعظم مودی کیا نافذ کرنا چاہتے ہیں اس کا کو ئی مسودہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے ۔ حالانہ یکساں سول کوڈ کا مسئلہ بی جے پی کے انتخابی ایجنڈے میں طویل عرصہ سے رہا ہے ۔ لیکن وزیراعظم اس کا اعلان کرتے وقت یہ بھول گئے کہ 1972 میں ایک اخبار کو انٹر ویو دیتے ہو ئے آر ایس ایس کے دوسرے ’’سر سنگھ چالک مادھو رائو سدا شیو رائو گولوالکر ‘‘یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کی تھی ۔مزید ان کا کہنا ہے کہ اس بات سے بہت لوگ حیرت زدہ ہو سکتے ہیں لیکن یہ میرا ماننا ہے کہ جو سچ مجھے دکھائی دیتا ہے اسے مجھے کہنا چاہئے یکسانیت کے تعلق سے گولوالکر کا کہنا ہے کہ’’ ہم آہنگی اور یکسانیت ‘‘ دو مختلف چیزیں ہیں ۔ یکسانیت ضروری نہیں ہے ہندوستان میں ہمیشہ تنوع رہا ہے اور اتحاد کو ہم آہنگی کی ضرورت ہے یکسانیت کی نہیں ۔ مسلمانوں کے تعلق سے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جو لوگ سیکو لرکہلاتے ہیں وہ بھی مسلمانوں کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک مسلمان اس ملک اور اس کی ثقافت سے محبت کر تے ہیں ان کا اپنے طرز زندگی پر عمل کرنے کا خیر مقدم ہے ۔ ایک اہم نقطہ پر گولوالکر کا کہنا تھا جس کو بر سر اقتدار حکمرانوں کو سمجھنا چاہئے وہ یہ کہ’’ مکینکی طریقے سے قانون کے ذریعہ سب کو برابر لانے کا رویہ رکھنا درست نہیں ہو گا‘‘ ۔وزیر اعظم دھیان دیں کہ وہ کس کس چیزوں کی یکسانیت چاہتے ہیں ہمارا ملک کثیر المذاہب ملک ہے مختلف زبانوں اور مختلف عقائد والا ملک ہے ۔ ملک ہندوستان میں دنیا کے تمام مذاہب کے افراد الگ الگ حصوں میں بستے ہیں ۔ سبھی اپنے اپنے مذہب اور روایات کی پابندی کرتے ہیں کسی کو ایک دوسرے سے کو ئی شکوہ اور شکایت نہیں ہے ۔ یہی ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے ۔ کثرت میں وحدت یہی ہندوستان کی پہچان ہے ۔کیا یوسی سی کے ذریعہ ایک قانون بناکر شادی میں پورے ملک کے لوگ بھوری کے پھیرے لیں گے ۔ یا پھر نکاح کریں گے ، یاچرچ جائیں گے یا شیو ورمالا ئیں ڈالیں گے ۔ مرنے کے بعد سبھی کو جلا یا جائے گا یا دفنایا جائے گا ۔ بہایا جائے گا یا جین اور پارسیوں کا طریقہ اپنایا جائے گا ۔ وزیر داخلہ امت شاہ کا یہ کہنا کہ کرشچن اور قبائلیوں کو اس سے مستثنیٰ کرنے پر غور کیاجارہا ہے ۔ اس پر پھرایک سوال اٹھتا ہے کہ یو سی سی کا مطلب ہی کیارہا ہے وزیر اعظم ملک میں ایک قانون لاگو کرنا چاہتے ہیں کیا ابھی ایک قانون نہیں ہے ؟ ہمارا جس کا حلف لے کر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں داخل ہو تے ہیں کیا وہ قانون نہیں جس کو پورا ملک مانتا ہے اگر اترا کھنڈ میں یو سی سی کا تیار کر دہ مسودہ جس کی سربراہی جسٹس ریٹائرڈ رنجنا پرکاش نے جو رپورٹ تیار کیا ہے ۔ جس میں صرف طلاق ، عدت ، حلالہ ، مرد و عورتوں کی برابری کے اختیارات ، شادی کا رجسٹریشن ، وراثت میں برابر کا حصہ دینا کیا یہی یکسانیت ہے ۔ سابق جج رنجنا کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مسلمانوں میں عدت کیوں پوری کی جاتی ہے کہنے کوتو بہت کچھ ہے سرکارکو چاہئے منی پور ڈھائی مہینے سے جل رہا ہے سینکڑوں لوگ مرچکے ہیں اور ہزاروں لوگ بے گھرر ہو چکے ہیں صرف 35 لاکھ والے صوبے کو کنٹرول نہیں کر سکے، بے روزگاری ، کسان کے مسائل ، مہنگائی ، چوری ، گھوٹالہ ، بد عنوانی ، رشوت خوری ، اور بد حال قانون بندوبست کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔ یونیفارم سول کوڈ سے اس موقع پر اعلان کرنا ظاہر کرتا ہے کہ کچھ ہو نہ ہو مگر ملک کے حالات زہر آلودہ رہیں تاکہ انتخاب کے وقت بھنایا جاسکے ۔
حاجی فہیم صدیقی
موبائل نمبر 9935794949