تہران: ایران نے معروف ریپر صالحی کو مہسا امینی کی موت کے بعد حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرنے پر قید کر دیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے چھ برس قید کی سزا کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ انسانی حقوق کے گروپ ہینگاؤ کا کہنا ہے کہ ایرانی ریپر توماج صالحی کو اتوار کے روز ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ وہ گزشتہ سال سے اصفہان کی ایک جیل میں قید تھے۔
33 سالہ صالحی کو ستمبر سن 2022 میں 22 سالہ ایرانی-کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس احتجاج کے بارے میں خصوصی نغمے بھی لکھے تھے۔ معروف موسیقار صالحی پر "انٹرنیٹ پر جھوٹ” پھیلانے اور "ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے” کے ساتھ ہی لوگوں کو تشدد پر اکسانے اور "ایرانی حکومت کی مخالفت کے لیے سکیورٹی میں خلل ڈالنے کے مقصد سے غیر قانونی گروپ بنانے اور ان کا انتظام کرنے” کا الزام لگایا گیا تھا۔
ایک عدالت نے معروف فنکار کو چھ برس قید کی سزا سنائی تھی، تاہم ایرانی سپریم کورٹ نے ذیلی عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔ صالحی کی ضمانت کی شرائط کو عام نہیں کیا گیا ہے اور ان کا مقدمہ ایک ذیلی عدالت کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔صالحی کے وکیل امیر رئیسیان نے ایک ایرانی اصلاحی اخبار ‘شارغ’ کو بتایا کہ اپیل پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو "ابتدائی سزا میں خامیاں” نظر آئیں اور اسی لیے ان کی رہائی کا حکم دیا۔
عدالت کے فیصلے کے بعد صالحی کے انسٹاگرام پیج پر پھولوں کا گلدستہ اٹھائے ہوئے ان کی ایک تصویر جاری کی گئی۔توماج صالحی نے مجموعی طور پر ایک برس 21 دن جیل میں گزارے، جن میں سے 252 دن قید تنہائی میں تھے۔ انہوں نے اپنے انسٹاگرام اور ایکس کے صفحات پر لکھا کہ "میں سوچتا ہوں کہ اذیت کے وقتوں میں انتہائی افسوسناک صورتحال تنہا رہنا ہے اور اب میں یہ سمجھ گیا ہوں کہ تنہا رہا ہونا اور بھی تلخ بات ہے۔”
ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے سن 1979 میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے سب سے بڑا چیلنج رہے ہیں۔سن 2022 کے اواخر میں شروع ہونے والے ان مظاہروں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے، جن میں درجنوں سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ ہزاروں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا، جن میں سے اب بھی بہت سے جیلوں میں ہیں۔ایرانی حکومت نے احتجاج سے متعلق مقدمات میں سات افراد کو پھانسی دی ہے۔ پیر کے روز بھی ایرانی سپریم کورٹ نے مظاہروں کے دوران پاسداران انقلاب کے ایک اہلکار کی ہلاکت پر سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔