نئی دہلی، 13 نومبر (یو این آئی) فورٹس میموریل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، گروگرام نے ایک انتہائی نایاب اور جان لیوا خون کی خرابی پیئرسن سنڈروم میں مبتلا ایک 14 ماہ کے کینیا کے بچے کا کامیابی سے علاج کرکے اہم طبی ریکارڈ بنایا ہے خون کا یہ عارضہ انتہائی نایاب سمجھا جاتا ہے اور ہر 10 لاکھ آبادی میں سے صرف 1 شخص اس کا شکار ہے اب تک میڈیکل سائنس میں ایسے صرف 150 معاملات کا ذکر کیا گیا ہے۔ فورٹس میموریل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، گروگرام کے پرنسپل ڈائرکٹر اور ہیڈ، پیڈیاٹرک ہیماٹولوجی، ہیماٹو آنکولوجی اور بون میرو ٹرانسپلانٹ ڈاکٹر وکاس دوا کی قیادت میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ اور کیموتھراپی کے ذریعے مریضہ کا علاج کیا۔ مریضہ کو 21 دن کے علاج کے بعد مستحکم حالت میںاسپتال سے رخصت کر دیا گیا۔ او پی ڈی میں مریض کا فالو اپ جاری ہے۔ یہ ہندوستان میں اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے۔
اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر وکاس دوا نے کہاکہ یہ ہندوستان میں پیئرسن سنڈروم کا پہلا کیس ہے۔ یہ ایک بہت ہی نایاب قسم کا جینیاتی عارضہ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس میں مبتلا مریضوں کے زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں، عام طور پر پیئرسن سنڈروم کے مریض ایک سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتے۔ لیکن اب بچی آریانا کے ٹرانسپلانٹ کو 4 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ صحت یاب ہورہی ہے۔ یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مائٹوکونڈریا کے ڈی این اے کے کچھ اہم حصے غائب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے خلیوں میں توانائی کی پیداوار کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ اس حالت کا علاج صحیح طبی نقطہ نظر اور علاج سے کیا جا سکتا ہے۔ پیئرسن سنڈروم کے مریضوں میں جو بون میرو فیل ہو جاتے ہیں، ہیماٹوپوائٹک سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ یا بون میرو ٹرانسپلانٹیشن علاج کا آپشن ہو سکتا ہے۔ ایسے معاملات میں کامیابی کی شرح صرف 20 فیصد ہے۔
فورٹس میموریل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، گروگرام فیسلٹی ڈائرکٹر یش راوت نے کہاکہ یہ نایاب کیس مریض کے لیے ذاتی نوعیت کے علاج کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس معاملے میں ہم نے ڈاکٹر وکاس کی قیادت میں بہت سے ماہرین اور ڈاکٹروں کی مدد لی ٹیم نے علاج کیا۔مریض کی طبی حالت کے مطابق بروقت علاج کی وجہ سے اچھے طبی نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ فورٹس میموریل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ہمارا مقصد ایک ہی چھت کے نیچے عالمی معیار کی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرنا ہے اور ہم اپنے مریضوں کی صحت کو اولین ترجیح دینے کے لیے پرعزم ہیں۔دریں اثنا ءاسپتال کے ڈاکٹروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بے بی آریانا کی ماں نے کہاکہ میری بیٹی کو فورٹس گروگرام میں سافل بون میرو ٹرانسپلانٹ سے نئی زندگی ملی ہے۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد ان کی حالت میں بہتری آرہی ہے۔ اپنی بچی کو درد سے گزرتے دیکھ کر دنیا میں اس سے بڑا کوئی درد نہیں ہوسکتا۔ میں ڈاکٹر وکاس دووا اور ان کی ٹیم کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مہارت سے میری بے بی کا علاج کیا اور اس کی جان بچائی۔
خیال رہے کہ کینیا کی بچی آریانا پیدائش کے بعد سے ہی خون کی کمی کا شکار تھی جس کی وجہ سے اس کی نشوونما بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ کینیا میں بچے کے علاج کے دوران کئی بار خون اور پلیٹلیٹ کی منتقلی کی گئی لیکن اس کے باوجود اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ دریں اثنا، مریض کی حالت خراب ہونے لگی اور مریض کو زندہ رہنے کے لیے ہاف میچ کے ڈونر ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی۔ بعدازاں مریض کو علاج کے لیے فورٹس گروگرام لایا گیا۔ اس وقت بھی وہ خون کی کمی اور پلیٹ لیٹس کی کمی کا شکار تھی۔
فورٹس گروگرام میں داخلے کے بعد مریض کے بون میرو کا معائنہ اور کچھ دوسرے جینیاتی ٹیسٹ بھی کیے گئے جس سے پیئرسن سنڈروم کا پتہ چلا۔ پیئرسن سنڈروم ایک بہت ہی نایاب حالت ہے جو جسم کے بہت سے اعضاءخصوصاً بون میرو اور لبلبہ کو متاثر کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں خون اور پلیٹلیٹس کی پیداوار کم ہوتی ہے جس سے مریض میں خون بہنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ بار بار اسہال، پیٹ میں درد، جسمانی نشوونما رک جانے جیسے مسائل بھی برقرار رہتے ہیں اور مریض زندہ نہیں رہتا۔اس حالت کی پیچیدگی اور نایاب صورت حال کے پیش نظربچے کے علاج کے لیے ایک کثیر الجہتی طریقہ اختیار کیا گیا جس میں بچوں کے نیفرولوجسٹ، پیڈیاٹرک گیسٹرو اینٹرولوجسٹ، ماہرین امراض چشم اور ای این ٹی ڈاکٹروں کی ٹیم نے بے بی آریانا کا معائنہ کیا کیونکہ یہ حالت جسم کے متعدد اعضاءکو متاثر کرتی ہے۔ متاثر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے اسہال اور آنکھوں میں لینز اور پتلی کا غیر معمولی ہونا، گلوکوما اور سماعت میں کمی جیسے مسائل بھی پیش آتے ہیں۔ مریض کا معائنہ کرنے کے بعد علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ کا انتخاب کیا گیا کیونکہ یہ سنڈروم ملٹی سسٹم کی حالت ہے اور پیئرسن سنڈروم کے علاج کے لیے صرف اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ ہی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔