غزہ: فلسطینی وزارت صحت نے غزہ میں اسرائیلی حملوں میں ہلاک اور زخمیوں کے تازہ اعداد و شمار جاری کر دیے ہیں جس کے تحت سات اکتوبر سے غزہ کی پٹی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباً 3000 ہو چکی ہے۔وزارت صحت نے مزید کہا ہے کہ ان حملوں میں ساڑھے بارہ ہزار شہری زخمی ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق مغربی کنارے میں ہونے والے حملوں میں بھی 61 فلسطینی مارے جا چکے ہیں جبکہ ساڑھے بارہ سو سے زیادہ زخمی ہیں۔ دریں اثناء عالمی ادارہ صحت نے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی بحران کے خدشے کے پیش نظر اسے امداد اور طبی سامان کی فراہمی کے لیے غزہ تک فوری رسائی دی جائے۔خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے بریفنگ میں بتایا کہ حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی اور حملوں کے آغاز سے اب تک غزہ میں 2800 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں جس میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق 11 ہزار سے زائد شہری زخمی بھی ہو چکے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایجنسی جلد از جلد غزہ تک رسائی کو کھولنے کے حوالے سے آج فیصلہ سازوں سے ملاقات بھی کر رہی ہے۔حکام نے مزید کہا کہ صحت کی دیکھ بھال سے متعلق 115 اداروں پر بھی حملے ہوئے ہیں جس کے باعث غزہ میں زیادہ تر ہسپتال غیر فعال ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں پانی اور بجلی کی کمی ہے۔اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین نے ایک بیان میں کہا، ’پانی کی کمی اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بارے میں بہت ذیادہ خدشات موجود ہیں۔ کیونکہ جنگ کے باعث پانی اور صفائی ستھرائی کی فراہمی سے متعلق خدمات معطل ہیں جبکہ پانی کے بغیر لوگوں کی ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔‘
آپ کو بتادیں کہ ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ پر حملوں کی اجازت نہیں دی جائے گی اور خبردار کیا کہ آئندہ چند گھنٹوں میں اگر ’فلسطینیوں پر حملے‘ نہ رکے تو ’پیشگی کارروائی‘ کی جا سکتی ہے۔ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اگر غزہ میں اسرائیل کے ’فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم‘ بند نہ ہوئے تو ’مزاحمتی فورس‘ اگلے چند گھنٹوں میں ’پیشگی کارروائی‘ کر سکتی ہے۔’مزاحمتی محاذ‘ یا فورس خطے میں فورسز کا ایک اتحاد ہے جس میں حزب اللہ بھی شامل ہے جو لبنان کا طاقتور گروہ ہے اور اسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔ ’مزاحمتی محاذ‘ میں وہ گروہ بھی شامل ہیں جن کی ایران، شام میں حمایت کرتا ہے اور شام کی سرحد بھی اسرائیل سے ملتی ہے۔گذشتہ ہفتے حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان لبنان اسرائیل سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس سے خدشہ پیدا ہوا کہ یہ حالیہ کشیدگی کا ایک اور محاذ بن سکتا ہے۔حالیہ دنوں میں ایران نے متعدد بار اسرائیل اور حماس جنگ کے بڑھنے کے خطرے کی بات کی ہے۔ لیکن ایرانی وزیر خارجہ کا تازہ بیان اس حوالے سے ابھی تک کی سب سے سخت دھمکی ہے کہ یہ لڑائی پھیل سکتی ہے اور ایک علاقائی تنازع بن سکتی ہے۔حزب اللہ کے پاس ہتھیاروں کا ایک وسیع ذخیرہ ہے، جس میں اسرائیلی علاقے میں اندر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل اور دسیوں ہزار تربیت یافتہ جنگجو ہیں۔مغربی ممالک نے تہران کو صورتحال کو مزید خراب کرنے سے خبردار کیا ہے اور اب تک سرحد پار سے تشدد پر قابو پایا جا چکا ہے۔لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل غزہ میں زمینی کارروائی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، تو یہاں کے عسکریت پسند یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اسرائیل کو جواب دینا چاہیے۔امریکہ کی جانب سے ایران کو اس تنازع کو بھڑکانے سے روکنے کے لیے انتباہ جاری کیا گیا ہے اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ اگر حزب اللہ بھی تنازع کا حصہ بن جاتا ہے تو وہ اسے منھ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے۔گذشتہ ہفتے کے دوران حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے لیکن اب تک لڑائی کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔گذشتہ رات اسرائیلی فوج کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس نے ایسے اہداف کو نشانہ بنایا ہے جو عسکریت پسند گروہ حماس کے ساتھ منسلک ہیں۔ تاہم اس دوران ہلاکتیں رپورٹ نہیں کی گئیں۔