نئی دہلی(یو این آئی) قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے صدر دفتر میں تقسیم ہند کی ہولناکیوں پر ایک لیکچرکا انعقاد کیاگیا پروگرام کی شروعات ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی اسسٹنٹ ڈائرکٹر (اکیڈمک)، قومی اردو کونسل کے استقبالیہ کلمات سے ہوئی ساتھ ہی انھوں نے آج کے خطیب اور موضوع کا تعارف کرایا آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق اس پروگرام میں لیکچر دینے کے لیے پروفیسر اخلاق آہن، صدر شعبۂ فارسی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو مدعو کیا گیا تھا۔
اس موقعے پر پروفیسراخلاق آہن نے ہندوستانی تاریخ اورتقسیم ہندکے بعد جس طرح کے حالات رونما ہوئے ان پر مختصر روشنی ڈالی، انھوں نے کہاکہ کسی بھی خطے یاعلاقے کی جو حالت اورحیثیت ہوتی ہے وہ وقت کے ساتھ بدلتی نہیں ہے جبکہ سیاسی،سماجی وثقافتی طورپرحالات بدلتے رہتے ہیں،1757 کی لڑائی کے بعد ہندوستان کی تہذیب اورماحول میں کئی طرح کی تبدیلی شروع ہوئی اور1947 میں ہندوستان کے دوٹکڑے ہوگئے، 20 فروری 1947 کو وزیراعظم ایٹلی نے لندن میں اعلان کردیاکہ جون 1948 سے پہلے ہندوستان میں اقتدار کسی مرکزی حکومت یاعلاقائی یاصوبائی حکومتوں کومنتقل کردیاجائے گا،وزیراعظم ایٹلی کے اسی اعلان کی وجہ سے لارڈمائونٹ بیٹن ہندوستان آیا اوراس نے تقسیم ہندکافارمولہ پیش کیا۔ا
نھوں نے مزیدکہاکہ مجاہدین آزادی میں زیادہ تر مذہبی لوگ تھے ،جبکہ تقسیم کی تحریک ان لوگوں نے شروع کی جو مذہبی نہیں تھے اورناہی مذہب سے ان کا کوئی زیادہ تعلق تھا،یہ لوگ بس مذہب کے نام پر سیاست کررہے تھے اورلوگوں کو تقسیم پرابھاررہے تھے، پروفیسراخلاق آہن نے تقسیم ہندکے بعد جس طرح کی تباہی مچی اورقتل وغارت کا بازار گرم ہوا اسے بھی بیان کیا،اخیرمیں انھوں نے کہاکہ اردو کے بہت سے ادیبوں نے تقسیم ہند کے بعد جس طرح کے حالات پیداہوئے اسے اپنی تخلیقات میں پیش کیاخاص طور پر سعادت حسن منٹو،کرشن چندر،راجندرسنگھ بیدی،قرۃالعین حیدراورحیات اللہ انصاری وغیرہ نے بڑے ہی مؤثر انداز میں تقسیم کے دکھ درد کو پیش کیاہے۔ڈاکٹر توقیر راہی کے شکریے کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا،اس پروگرام میں کونسل کاپوراعملہ موجود رہا۔