نئی دہلی: بدخواہوں نے دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری کے انتقال کی افواہ اُڑا دی ،جسےجامع مسجد کی جانب سے مسترد کیا گیاہے۔ جامع مسجد کے عہدیدار انصارالحق نے ایک بیان جاری کیا ہے۔ ان کا یہ بیان شاہی امام سید احمد بخاری کے بیٹے شعبان بخاری نے انسٹاگرام پر شیئر کیا ہے۔انہوں نے لکھا، "الحمدللہ، صحت ٹھیک ہے، جلد ڈسچارج ہو جائیں گے۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں”۔
انصارالحق نے کہا کہ ’سید احمد بخاری صحت یاب ہو رہے ہیں اور انہیں جلد ہی ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا جائے گا‘۔ درحقیقت جمعہ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر بہت سے صارفین نے دعویٰ کیا کہ شاہی امام کا انتقال ہو گیا ہے۔جامع مسجد کی انتظامیہ نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، "ای این ٹی سرجن نے اپولو اسپتال نئی دہلی میں شاہی امام کی سرجری کی ہے، انہوں نے بتایا ہے کہ شاہی امام ٹھیک ہیں اور جلد ہی اسپتال سے ڈسچارج ہو جائیں گے، انشاء اللہ۔”
امام احمد بخاری کو بغرض علاج چند دنوں قبل اپولواسپتال میں داخل کرایا گیا تھا،جہاں ان کی سرجری بھی ہوئی تھی۔ احمد بخاری کی ناساز طبیعت سے متعلق جانکاری ان کے پوتے سید اریب بخاری نے سوشل میڈیا کے ذریعہ دی تھی۔ اریب بخاری نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لوگوں سے اپنے دادا کی صحت کے لیے دعا کی اپیل کی تھی ،جس کے بعد لوگوں کو امام صاحب کی علالت کی خبر ملی اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر امام صاحب کیلئے ان کے چاہنے والوں کی جانب سے دعائے صحت کی اپیل کی جانے لگی۔
انسٹاگرام پر شیئر ویڈیو میں اریب بخاری کویہ کہتے سنا گیا تھاکہ ’’میرے دادا، شاہی امام سید احمد بخاری کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی ہے۔ انھیں علاج کے لیے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ آپ سبھی سے گزارش ہے کہ ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کریں‘‘۔ ان کے اس پیغام کے بعد سوشل میڈیا پر دعاؤں اور نیک خواہشات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
امام بخاری کے خاندانی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے ہندی نیوز پورٹل ’ٹی وی 9 بھارت ورش‘ نے بتایا کتھاہ انھیں ایک انفیکشن ہوا ہے، جس کے علاج کے لیے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے جب سید احمد بخاری کی طبیعت بگڑی تھی۔ کچھ ماہ قبل بھی انھیں صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کے سبب ان کا آپریشن کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی انھیں کچھ دن اسپتال میں گزارنا پڑا تھا۔ اس کے بعد سے وہ مستقل طور پر علاج اور ہیلتھ جانچ کروا رہے تھے اور پھر انہیں سرجری کا دوبارہ سامنا کرنا پڑگیاا۔
بتادیں کہ سید احمد بخاری خاص مذہبی حلقے میں قابل احترام مذہبی رہنما تصور کئے جاتے رہے ہیں لیکن ان کے بدخواہوں کی بھی کمی نہیں ہے۔انہوں نے برسوں دہلی کی جامع مسجد میں شاہی امام کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کی صحت کے حوالے سے ملک بھر میں تشویش کی فضا دیکھی جا رہی تھی۔قابل ذکر ہے کہ احمد بخاری نے 14 اکتوبر 2000 کو اپنے والد عبداللہ بخاری کے بعد دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام کا عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ جامع مسجد کے 13ویں شاہی امام بنے تھے۔ اس کے بعد 22 نومبر 2014 کو ان کے بیٹے شعبان بخاری کو باقاعدہ طور پر اگلا شاہی امام مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے 26 فروری کو 14ویں شاہی امام کا عہدہ سنبھالا تھا۔
احمد بخاری کے چاہنے والے جتنے ہیں،مخالفین کی تعداد بھی اسی قدر ہے۔خود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ انہیں "سیاسی امام” قرار دیتارہاہے کیوں کہ ماضی میں جامع مسجد کے منبر سے امام صاحب کے ذریعہ کی جانے والی بعض تقاریر میں "سیاستٗ کے مختلف پہلووں کا نہ صرف یہ کہ احاطہ دیکھنے کو ملا بلکہ متعدد بار انہوں نے انتخابی سیاست میں مسلمانوں کو کس جماعت کی حمایت کرنی چاہئے اور کس جماعت سے دوری اختیار کرنی چاہئے،امام صاحب اپنے” بے لاگ "یا”متنازعہ فیصلوں سے عام و خاص کو حیران کرتے رہے ۔ایسا ہی ایک موقع 2014 میں بھی آیا تھا،جب، ٹائمز آف انڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں ، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو مدعو کرنے اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو نظر انداز کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر، نائب امام یا امام کے نائب کی تقرری کی تقریب پر، احمد بخاری نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ مودی 125 کروڑ مسلمانوں کا وزیر اعظم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن انہوں نے 125 کروڑ مسلمانوں کو مناسب خطاب کرنے سے گریز کیا۔
2001 می امام بخاری پریہ الزام عائد ہوا تھا کہ ان کی قیادت میں ایک ہجوم نے لودھی کالونی میں سی جی او کمپلیکس کے قریب سے تجاوزات ہٹانے کی کوشش کرنے والے پولیس اور شہری اداروں کے اہلکاروں پر حملہ کیا ۔ اس کیس میں بخاری کے خلاف دہلی کی عدالت نے بار بار وارنٹ جاری کیے لیکن بعض میڈیا کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ دہلی پولیس انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی ۔ سیاسی معاملات میں امام بخاری کی بعض مداخلتانہ کوششیں بھی وجہ تنازعہ بنیں۔مثلاً 2015 کے یوپی اسمبلی انتخابات کے دوران، بخاری نے ملائم سنگھ یادو کو ایک خط لکھ کر راجیہ سبھا کے لیے مسلم امیدواروں کو نامزد نہ کرنے پر تنقید کی۔
اس کے جواب میں یوپی کے اُس وقت کے وزیر اور سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما اعظم خان نے الزام لگایا تھا کہ بخاری حکومت پر مسلمانوں کو مساوی حقوق نہیں دینے کا الزام لگا رہے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے رشتہ دار کو راجیہ سبھا کا ٹکٹ ملے ۔امام صاحب اعظم خان کو پسند نہیں کیا کرتے تھے یا یوں کہیں کہ اعظم خان اور امام بخاری اپنے مداحوں کے دَم پر دوسرے کو زیر کرنے سے بھی پیچھے نہیں رہے۔دادری کے بدنام زمانہ لنچنگ کے معاملہ میں اپنے رد عمل کااظہار کرتے ہوئے احمد بعد بخاری نے الزام لگایا تھاکہ اعظم خان واقعہ کی جگہ نہیں جا سکتے لیکن وہ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے اقوام متحدہ جانے کی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے اعظم کو ‘نہایت بدتمیز مسلم وزیر’ بھی کہاتھا۔ اعظم خان نے اس الزام کی تردید کی تھی اور امام موصوف پر دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کے ساتھ ہاتھ ملانے کا الزام لگایا تھا۔
اب جبکہ امام صاحب داخل اسپتال ہیں،ان کے بدخواہوں نے یہ افواہ اڑا دی کہ امام صاحب نہیں رہے۔افسوسناک صورتحال یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں نے بلاتحقیق اس افواہ کو آگے بڑھانا اور امام صاحب کیلئے اناللہ پڑھتے ہوئے ان کی بلندی درجات کی دعا مانگی بھی شروع کردی۔البتہ خاص بات یہ بھی ہے کہ جامع مسجد کی انتظامیہ اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے یہ خبر شیئر کی گئی ہے کہ امام صاحب تیزی کے ساتھ روبہ صحت ہورہے ہیں اور یہ بھی کہ موت کی افواہ پوری طرح غلط ہے۔