علی گڑھ(پریس ریلیز): ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ ہوں۔ ندی پر بیٹھ کر وضو کرتے ہوئے پانی بہانے میں اسراف نہ کرو، جب دشمن کے علاقے میں جائو توسبزہ زاروں کو نقصان نہ پہنچائو‘‘۔ ان احادیث کا ذکر پروفیسر محمد سفیان بیگ، پرنسپل، ذاکر حسین کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز میں منعقد ہونے والے یک روزہ سمینار بعنوان ’’ اسلام میں ماحولیاتی اخلاقیات: اصول اور تناظر‘ میں کیا۔
انھوں نے کہا کہ دور جدید کی سائنس وٹکنالوجی ترقی اور تعمیر کے نام پر تخریب وفساد کا شکار ہے۔ پروفیسر بیگ نے پلاسٹک، سولر انرجی نیز دیگر مادیات سے ہونے والے نقصانات کا ذکر کیا ۔ انھوںنے نوجوانوں کے سامنے سوال رکھا کہ کہ عہد وسطیٰ میں مسلمان سائنس داں بے شمار نظر آتے ہیں، آج یہ سلسلہ کیوںموقوف ہوگیا؟انھوں نے کہا کہ پہلے ایک مسلمان سائنس داں ہونے کے ساتھ متقی بھی ہوتا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ہی ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔
کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر عبید اللہ فہد نے قرآنی آیات کی روشنی میں کہا کہ اللہ کی کائنات اور اس کی تخلیقات میں کسی بھی قوت، طاقت ادارے کو تبدیلی کا حق نہیں دیا جا سکتا ۔انہوں نے فطرۃ اللہ کو کون و مکاں کے درمیان توازن کے لئے ضروری قدرقرار دیا کیوں کہ اسلام توازن کا دین ہے۔ عالم اسلام کے معروف اسکالر طہٰ جابر العلوانی کے تصور عمرانیات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ قرآن، انسان اور تہذیب کے درمیان تصادم کو پسند نہیں کرتا، دنیا کے وسائل و ذرائع کو مشترکہ میراث تصور کیا جائے اور تصورات کے درمیان تصادم اور ٹکرائو کو باہمی گفت و شنید سے حل کیا جائے۔
مہمان خصوصی پروفیسر ثناء اللہ ندوی ، چیئرمین شعبہ عربی نے ریسرچ اسکالر سمینار کے عنوان کو جدید دور کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ فقہائے اسلام اور مسلم دانشوروں نے اس عنوان کو قدیم زمانے سے آج تک اپنی فکر و نظر کا موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرانسیسی اور صنعتی انقلاب کے بعد ماحولیاتی بحران نے سنگین صورت حال سے دنیا کو دوچار کیا ہے اور انسان اور فطرت کے درمیان خلا کو تھیالوجی اور صوفی ازم کے الحاق سے بھرا جاسکتا ہے ۔
پروفیسر ثناء اللہ نے قرآنی آیت ’’امم امثالکم‘ سے اسلام کے بین الاقوامی تصور پر روشنی ڈالی اور ابن سینا، فخرالدین رازی اور عصر جدید کے سید حسین نصر کے افکار سے موضوع کی مناسبتیں تلاش کیں۔ انہوں نے اسلامی ادب کے اسکالر حیّ ابن یقظان کو یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے لئے موثر محرک قرار دیا۔
شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر عبدالمجید خان نے جدید دنیا کے علمی و فکری بحران کو ماحولیاتی بحران کا سبب قرار دیتے ہوئے اس نکتہ کی وضاحت کی کہ علمی بنیادوں کو فطری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ آج انسانیت کے مطالعات میں فطری حقائق اور مبادیات کو الگ کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسلم اسکالرز کو چاہئے کہ دینی و تہذیبی معاملات میں مداہنت کا مظاہرہ نہ کریں ان کے پاس اپنی علمیاتی بنیادیں موجود ہیں۔
کنوینر سمینار ڈاکٹر بلال احمد کٹی نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ڈاکٹر اعجاز احمد نے تعاون پیش کیا اور ڈاکٹر نگہت رشید نے کلمات تشکر ادا کئے۔
دو علمی اجلاس میں صدرات کے فرائض ڈاکٹر آدم ملک خان اور ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی نے انجام دئے جبکہ نظامت فردوس اختر اور صبا ارشاد انصاری نے کی۔ ڈاکٹر فلاحی نے اپنے خطبہ صدارت میں مقالہ نگاران کے حوصلوں کو مہمیز دیتے ہوئے کہا کہ اسلامک اسٹڈیز خالص سائنسی میدانوں میں بھی رہنمائی کر سکتا ہے جیسا کہ اس سمینار کے عنوان اور پیش کردہ مقالات سے ظاہر ہوتا ہے ۔
سمینار میں کل نو مقالات پیش کئے گئے۔ صبا ارشاد انصار، عادل حسین ملک، محمد فتون دوحہ، رزبین، منیب احمد، پروگست دینبا، ڈاکٹر فرحین طاہر اور ڈاکٹر زرین وہاب نے ماحولیات کے متعدد گوشوں پر قرآن ، حدیث، فقہ اور معروف مسلم دانشوروں کے افکار کی روشنی میں مقالات پیش کئے۔
آخر میں صدر شعبہ پروفیسر عبدالحمید فاضلی نے تمام مہمانوں، مقالہ نگاروں اور غیر تدریسی عملہ کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تمام مقالات شائع کئے جائیں گے اور جلد ہی اگلے سمینار کے عنوان کا اعلان کیا جائے گا ۔ موصوف نے نوجوان اسکالرز کو علم و تحقیق کے میدان میں یکسوئی کے ساتھ اپنی حصہ داری نبھانے کی نصیحت کی۔