علحدہ ریاست کی تشکیل کے وقت صرف 75,577 کروڑ روپئے کا قرض ورثے میں ملا تھا
حیدرآباد : تلنگانہ پر 9 سال کے دوران قرض کا بوجھ بڑھ کر 4.8 لاکھ کروڑ تک پہونچ گیا ہے ۔ جس میں 3.23 لاکھ کروڑ روپئے بجٹ قرض ہے ۔ مزید ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپئے کا قرض مختلف کارپوریشن سے حاصل کیا گیا ہے ۔ ہر سال ریاست پر قرض میں بدستور اضافہ ہورہا ہے ۔ اوسطاً ماہانہ 1867 کروڑ روپئے سود ادا کرنا پڑرہا ہے ۔ اگر اس میں اصل قرض بھی شمار کرلیا جائے تو حکومت کو ماہانہ 2926 کروڑ روپئے ادا کرنا پڑرہا ہے ۔ اصل قرض اور سود ملا کر بجٹ کا 7 فیصد اور ریاست کی آمدنی کا 25 فیصد ادا کرنا پڑرہا ہے ۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔یہ دعویٰ سیاست نیوزکی ایک خبرمیں کیا گیاہے،جس میں بتایا گیا ہے کہ ریاست کی معاشی صورتحال کتنی تشویشناک ہوگئی ہے ۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اتم کمار ریڈی نے 13 فروری کو پارلیمنٹ میں ریاست تلنگانہ کے قرض پر سوال پوچھا تھا جس پر مرکزی مملکتی وزیر فینانس پنکج چودھری نے تحریری جواب دیتے ہوئے بتایا تھا کہ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل 2 جون تک ریاست پر صرف 75,577 کروڑ روپئے کا قرض تھا ۔ کے سی آر کی قیادت میں تلنگانہ کا خرچ مارچ 2022 تک بجٹ قرض ، گیارنٹی قرض ملاکر 4,33,817,94 لاکھ کروڑ تک پہونچ گئے جس میں بجٹ قرض 2,83,452 لاکھ کروڑ ریاست کی جانب سے دی گئی گیارنٹی 12 کمرشیل بنکوں سے حکومت کے مختلف کارپوریشنس سے حاصل کردہ قرض 1,30,934.94 لاکھ کروڑ اس کے علاوہ نبارڈ سے مزید 19,431 کروڑ روپئے کا قرض حاصل کرنے کی پنکج چودھری نے تفصیلات پیش کی ہے ۔
سال 2022-23 میں حاصل کردہ 39,859 کروڑ قرض کو شمار کرلیا جائے تو بجٹ قرض 3,23,311 کروڑ تک پہونچ جائے گا ۔ مالیاتی سال 2022-23 میں مرکز کی جانب سے عائد کردہ تحدیدات سے کارپوریشنس کو گیارنٹی قرض حاصل نہیں ہوئے ۔ اس کو بھی شمار کرلیا جائے تو فروری تک ریاست پر قرض کا بوجھ بڑھ کر 4,73,677.49 لاکھ کروڑ تک پہونچ گیا ۔ مارچ میں حاصل کردہ قرض کو بھی ملایا جائے تو 4.80 لاکھ کروڑ تک پہونچنے کے امکانات ہیں ۔
قرض کے ساتھ ساتھ اصل اور سود کی ادائیگی میں بھی ہر سال اضافہ ہورہا ہے ۔ جو بھی آمدنی حاصل ہورہی ہے وہ قرض اور سود کی ادائیگی میں چلی جارہی ہے ۔ ریاست کی معاشی صورتحال بدحال ہوچکی ہے ۔ جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی ماہانہ مقررہ وقت پر تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہے ۔ سپلیمنٹری بلز کلیر نہیں ہورہے ہیں ۔ کنٹراکٹرس کو بلز کی اجرائی ، فلاحی اسکیمات ، ترقیاتی اقدامات کے لیے فنڈز کی اجرائی میں حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی آمدنی کے ذرائع سے حکومت فوری استفادہ کررہی ہے ۔ غیر مجاز اراضیات کو باقاعدہ بنانے جی او 59 کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے درخواستوں کے ادخال کی آخری تاریخ میں ایک ماہ کی توسیع کی گئی ساتھ ہی 30 سال کے دوران 2.7 لاکھ کروڑ روپئے آمدنی حاصل کرنے والے آوٹر رنگ روڈ کے کنٹراکٹ کو صرف 7380 کروڑ روپئے میں حوالے کردیا گیا ۔ اس پر کئی تنقیدوں کے باوجود حکومت نے کوئی نظر ثانی نہیں کی ۔