نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک):عالمی ادارہ صحت کے کا کہنا ہے کہ اس کے اندازوں کے مطابق 90 فیصد لوگوں میں کووڈ 19 کے خلاف مزاحمت پیدا ہو چکی ہے۔ تاہم ادارے نے اس کی نئی اقسام کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انفیکشن بڑھتا جا رہا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ اس کے اندازوں کے مطابق دنیا کی تقریبا 90 فیصد آبادی اب کووڈ 19 کے خلاف کچھ حد تک قوت مدافعت پیدا کر چکی ہے۔ تاہم ادارے نے متنبہ کیا کہ اس وبا کے تئیں ذرا سی بھی کوتاہی اس کی نئی شکلوں کے ارتقاء کے دروازے بھی کھول سکتی ہے۔
ادارے کے سربراہ ٹیڈروس اڈہانوم گیبریئس نے جنیوا میں کہا، "ڈبلیو ایچ او کا تخمینہ ہے کہ دنیا کی کم از کم 90 فیصد آبادی میں اب پہلے سے ہونے والے انفیکشن یا ویکسینیشن کی وجہ سے ایس اے آر ایس – سی او وی-2 کے خلاف کسی حد تک قوت مدافعت پیدا ہو گئی ہے۔”
ان کا کہنا تھا: "ہم یہ کہنے کے قابل ہونے کے بہت قریب ہیں کہ وبائی مرض کا ہنگامی مرحلہ ختم ہو گیا، تاہم ابھی تک ہم وہاں پہنچے نہیں ہیں۔ اس کی نگرانی، جانچ اور ویکسینیشن میں ہونے والی کوتاہی نئی خطرناک ویریئنٹ کے لیے بہترین حالات پیدا کر سکتی ہے، جو اموات کا بھی سبب بن سکتا ہے۔”
ٹیڈروس کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے ہی خطرناک اومیکرون ویریئنٹ کا ایک سال مکمل ہوا ہے، جب گزشتہ برس اس کو نام دیا گیا تھا۔ اس نئے ویریئنٹ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا اس وقت بھی انتہائی متعدی وائرس کی کم از کم 500 دیگر اومیکرون کی قسمیں گردش میں ہیں۔برطانیہ میں ایک بار پھر سے انفیکشن کی تعداد میں اضافے اور چین میں ریکارڈ بلندیوں پر پہنچنے کے تناظر میں، اب عالمی ادارہ صحت، دنیا بھر کی حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ سب سے پہلے ایسے کمزور افراد کے تحفظ پر توجہ مرکوز کریں، جو 60 برس سے زیادہ عمر کے ہیں یا پھر جو پہلے سے ہی صحت کے دیگر مسائل سے دو چار ہیں۔گزشتہ ہفتے ہی ساڑھے آٹھ ہزار سے زیادہ افراد کووڈ انیس کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اس بارے میں ٹیڈروس کا کہنا تھا، "وبا کے تین برس بعد اب یہ قطعی قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اب ہمارے پاس انفیکشن کو روکنے اور جان بچانے کے لیے بہت سے آلات موجود ہیں۔”
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس نے سن 2019 میں کورونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد سے تقریباً 640 ملین کیسز میں سے 66 لاکھ اموات کا باضابطہ طور پر اندراج کیا ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اصل ہلاکتوں کی تعداد کی عکاسی نہیں کرتی کیونکہ بڑی تعداد میں اموات رپورٹ ہی نہیں کی گئیں۔
چین نے حال ہی میں اس بات کا اشارہ کیا کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جو سخت اصول و ضوابط نافذ ہیں، اس میں وہ کمی کرنے جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ چین میں اس حوالے سے نافذ سخت قوانین کے خلاف عوام احتجاجی مظاہروں کے لیے سڑکوں پر نکلنے لگی تھی۔ جمعے کے روز یورپی یونین کے صدر شارل مشیل کے ساتھ بات کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین میں زیادہ تر انفیکشن کے کیسز اومیکرون کے ہلکے قسم کے ہیں اور اسی لیے نرمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پابندیوں میں نرمی سے، "زیادہ کشادگی کا راستہ کھلتا ہے، جو ہم بعض علاقوں میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔”
ہنگامی حالات سے متعلق ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا کہ ادارہ "یہ جان کر خوش ہوا کہ چینی حکام اپنی موجودہ حکمت عملیوں کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ یہ کنٹرول میکانزم اور ان کمیونٹیز کی زندگیوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی بات ہے، جو ملک میں کووڈ کے خلاف سخت زیرو پالیسی کی وجہ سے، تکلیف کا سامنا کرتے رہے ہیں۔