محمد شرافت علی
انتظار کی گھڑی ختم ہوا چاہتی ہے۔اب سے چند گھنٹوں کے بعدملک کی5میں سے4 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے شروع ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ ملک کی سیاست کیا کروٹ لے بھی رہی ہے آیا نہیں؟ہر چند کہ پانچ ریاستوں کے الیکشن کے نتائج3دسمبر کو آناتھے لیکن الیکشن کمیشن نے میزورم میں ووٹ شماری کی تاریخ ایک دن کیلئے بڑھانے کا اعلانیہ جاری کر دیا۔ اس طرح تبدیل شدہ شیڈول کے تحت اب 5میں سے4 صوبوں یعنی مدھیہ پردیش،راجستھان، چھتیس گڑھ اورتلنگانہ کے اسمبلی الیکشن کے نتائج 3دسمبر کو آئیں گے اور ایک دن بعد میزورم کا نتیجہ سامنے آسکے گا۔انتخابی نتائج کی آمد کے ساتھ ہی جہاں ایک طرف ان صوبوں میں راج کون کرے گا،یہ طئے ہوگا، وہیں ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی پتہ چل سکے گا کہ اس وقت رائے عامہ کا سیاسی مزاج کیا ہے۔
مدھیہ پردیش کے علاوہ راجستھان کے حوالے سے اس وقت ملک بھر کے عوام کے درمیان کچھ زیاد ہ ہی تجسس پایا جارہاہے۔ ان دونوں ریاستوں میں سابقہ حکومتوں کو رائے دہندگان حکمرانی کاایک بار پھر موقع دیں گے یا ان دونوں صوبوں میں تبدیلیئ اقتدارکو یقینی بنانے کا فیصلہ سامنے آئے گا،یہ دیکھنا بہر حال دلچسپ ہوگا۔ متذکرہ دونوں ریاستوں کے حوالے سے یہ اندازہ ہے کہ یہاں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابلہ آرائی ہوگی اوریہ بعید از امکان بھی نہیں کہ جیت کا فاصلہ خاصا کم ہو!۔
انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد جو ایگزٹ پول سامنے آئے،ان سے بھی اسی خیال کی عکاسی ہورہی ہے۔ حالانکہ کچھ ایگزٹ پول میں راجستھان میں تبدیلیئ اقتدار کی امید ضرور ظاہر کی گئی ہے،لیکن امکانی نتائج کا جو اظہار کیا گیا ہے،انہیں دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سخت مقابلہ آرائی کے درمیان ایسی ٹکر ہوسکتی ہے،جو چند نشستوں کے فرق کے ساتھ کسی کی جیت اور کسی کی ہار کا سبب بن سکتی ہے۔ راجستھان کی گہلوت سرکار کی واپسی اگر ہوئی تو اسے غیر معمولی بھی قرار دیاجانا فطری ہوگاکیونکہ اس ریاست کے عوام کا اب تک یہی مزاج رہاہے کہ وہ ہر الیکشن میں تبدیلی کے حق میں فیصلہ سنا دیا کرتے ہیں۔کانگریس انتخابی مہم کے دوران یہاں ’رواج‘ بدلنے کا نعرہ لگاتی رہی،لیکن یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ’رواج‘ بدلتا ہے یا ’راج‘؟۔اگر ’رواج‘ بدل گیاتو پھر اس کا ایک مطلب یہ بھی نکلے گا کہ گہلوت سرکار کے تئیں عوام کا بھروسہ بڑھاہے اور اگر سرکار بدل گئی تو اس کے معنی یہی نکالے جائیں گے کہ عوام نے ماضی سے بہت زیادہ مختلف انداز میں فیصلہ نہیں لیا۔یہ سچ ہے کہ راجستھان میں گہلوت کی قیادت پر ماضی میں کانگریس کے ہی دوسرے گروپ کے ذریعہ انگلی اٹھائی گئی بلکہ کئی بار کانگریس کے ناراض عناصر نے گہلوت کی جگہ سچن پائلٹ کو زمام اقتدار سپرد کرنے کا بھی تقاضا کیا۔یوں گہلوت سرکار اپنی موجودہ میعادکار کے درمیان داخلی محاذ پر بھی چیلنج جھیلتی رہی،لیکن انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے بعد اس سرکار کیلئے اطمینان کی بات یہ بھی رہی کہ داخلی سطح پر گہلوت کے تئیں پائی جانے والی بے اطمینانی میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی ہی محسوس کی گئی۔میڈیا اور اپوزیشن دونوں نے اس ایشو کو گرم بھی کرنا چاہا لیکن ایک طرح سے یہ کانگریس کیلئے اچھی خبر رہی کہ سچن پائلٹ نے بطورخاص انتخابی مہم کے دوران گہلوت کے تئیں کسی طرح کی بے اطمینانی ظاہر نہیں کی۔ اس طرح گہلوت سرکارکو خارجہ محاذپر پائی جانے والی صورتحال کا بہتر انداز سے مقابلہ کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ چونکہ بھارتیہ جنتاپارٹی نے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طورپر کسی چہرے کو نمایاں کرنے کی زحمت نہیں کی،اس وجہ سے بھی یہ مانا جانے لگا کہ گہلوت کیلئے واپسی کا راستہ آسان ہوسکتا ہے،مگر راجستھان کی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ راجستھان کے عوام اپنے سابقہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے گہلوت کی واپسی کا فیصلہ بآسانی کر لیں گے،یہ بہ ظاہر آسان دکھائی نہیں دیتا۔200 رکنی راجستھان اسمبلی میں کانگریس کو پچھلے الیکشن میں 100 نشستیں ملی تھیں،جبکہ بی جے پی کو73 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑاتھا۔اس بار یہاں کی رائے عامہ کیا فیصلے لے گی،یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
جہاں تک مدھیہ پردیش کی سیاست کا تعلق ہے تو یہاں 18 برسوں سے ’ماما‘کی سرکاررہی ہے،جسے بڑے پیمانے پر نہ سہی،لیکن کسی حد تک عوام کی ناراضگیوں کا سامنا رہا۔عوامی سطح پر مدھیہ پردیش کی شیوراج سرکارکے تئیں بے اطمینانی سے بھارتیہ جنتاپارٹی کی مرکزی قیادت بھی اچھی طرح واقف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے شیوراج کو باضابطہ اگلے وزیر اعلیٰ کے طورپر نماں نہیں کیا۔حد تو یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم نے کئی انتخابی جلسوں میں شیوراج کا نام یا تو نہیں لیایا انہیں اگنور کرنے والا فارمولہ اختیار کیا۔خلاصہ یہ کہ شیوراج کے تئیں عوامی سطح پرپائی جانے والی بے اطمینانی کے درمیان بھارتیہ جنتاپارٹی نے یہاں اقتدار میں واپسی کی کوشش کی۔یہ کوشش کہاں تک کامیاب ہوگی،یہ کل تب پتہ چلے گا،جب انتخابات کے نتائج ہم سبھوں کے سامنے ہوں گے۔انتخابات کی تکمیل کے بعدمدھیہ پردیش کے تعلق سے جو ایگزٹ پول سامنے آئے،ان سے بھی تصویرغیر واضح ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کیلئے واپسی درج کراپانالوہے کے چنے چبانے سے کم نہیں ہے۔اقتدارمخالف لہروں کا سامنا تو صحیح معنوں میں شیوراج کو2018 کے ہی اسمبلی الیکشن میں کرنا پڑ گیا تھا،جب بی جے پی یہاں اقتدار کھو بیٹھی تھی۔230رکنی مدھیہ پردیش کی اسمبلی کے2018 کے الیکشن میں کانگریس نے114نشستوں پر کامیابی کا جھنڈا لہراکرمقننہ میں سب سے بڑی پارٹی کا اعزاز اپنے نام کرلیا تھا جبکہ بی جے پی 109سیٹوں پر سمٹ گئی تھی،جس کے بعد کملناتھ کی قیادت میں یہاں کانگریس نے حکومت سازی بھی کی لیکن15ماہ میں ہی کانگریس کی سرکارگر گئی اور توڑجوڑ کے ’سیاسی کرشمہ‘کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ جس شیوراج کو عوامی ناراضگی کے سبب اقتدار سے بے دخل ہونا پڑاتھا، وہی شیوراج ایک بار پھروزیر اعلیٰ بن گئے اورباقی ماندہ میعادکارانہوں نے پورا بھی کیا۔
جہاں تک چھتیس گڑھ کا تعلق ہے تو انتخابی رجحان تقریباً واضح ہے کہ یہاں کانگریس ایک بار پھر اقتدار میں واپسی درج کراسکتی ہے۔ تقریباً تمام کے تمام ایگزٹ پول میں یہ بتایا گیا ہے کہ چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل کی سرکار کی واپسی لگ بھگ پکی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ الگ الگ اگزٹ پول میں امکانی تصویر الگ الگ ظاہر کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ چھتیس گڑھ میں کانگریس کی واپسی ہوسکتی ہے،البتہ سیٹوں کا فرق پہلے کے مقابلے زیادہ نہ ہو،یہ ایک الگ بات ہے۔
اس بار تلنگانہ کا انتخابی نتیجہ کیا واقعی دلچسپ ہوگا،کل یہ بھی پتہ چل جائے گا۔ جنوب کی اس ریاست میں بڑی تبدیلی کی واضح لکیریں ایگزٹ پول کے اخذ کردہ نتائج میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ مختلف ایگزٹ پول کے اخذ کردہ دنتائج کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیاجارہاہے کہ اس بار یہاں بی آر ایس (سابقہ ٹی آر ایس) کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والاہے۔ذہن نشیں رہے کہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعدسے یہاں تلنگانہ راشٹر سمیتی اقتدارمیں ہے،جس کے مکھیا کے چندر شیکھرراؤبہ حیثیت وزیر اعلیٰ اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ماضی قریب میں انہوں نے اپنی پارٹی’ٹی آر ایس‘ کا نام تبدیل کر لیاتھااوریوں ’بی آر ایس‘کے طور پر انہوں نے اپنی پارٹی کی نئی شروعات کی تھی۔’بھارت راشٹر سیمتی‘کے بینر تلے انہوں نے قومی سیاست میں ایک نئی شروعات کا خواب توضرور سجایا تھا،لیکن اتفاق دیکھئے کہ ان کی ریاست میں ہی ان کی واپسی مشکل نظر آرہی ہے،جس کیلئے بہت سے تجزیہ نگار انہیں اور ان کی پارٹی کو ہی ذمہ دار یا قصوروار قرار دے رہے ہیں۔گوکہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ’بی آرایس‘کا انتخابی مظاہر ہ کیسا رہے گا،لیکن اگزٹ پول کا اندازہ سامنے آنے کے ساتھ ہی محسوس کی جانے والی ’تبدیلی‘ کی لہرمیں اضافہ ہوگیا ہے۔119حلقوں پر مشتمل تلنگانہ اسمبلی میں ٹی آر ایس نے 2018میں 88نشستوں پر قبضہ جمایا تھا،جبکہ کانگریس کو محض19سیٹیں مل سکی تھیں۔پچھلے الیکشن میں ملک کی سب سے بڑی جماعت یعنی بھارتیہ جنتاپارٹی یہاں سب سے چھوٹی بن گئی تھی اور اسے صرف ایک سیٹ مل سکی تھی۔اس بار کیا ہوگا،یہ کل پتہ چلے گا۔
بہرحال دیکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہوگی کہ راجستھان،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ اورتلنگانہ کے عوام کا فیصلہ کیا سامنے آتا ہے؟پھر اس کے بعد شمال مشرق کی ریاست میزورم کے انتخابی نتائج کی آمد کا ہمیں انتظار کرنا ہوگا،جہاں ایک دن بعد رائے شماری ہوگی۔40رکنی اسمبلی کے پچھلے الیکشن میں یہاں میزو نیشنل فرنٹ نے26نشستوں پر کامیابی کا پرچم لہرایا تھا۔زورم پیپلز موومنٹ کو8، جبکہ کانگریس کو5سیٹیں ملی تھی۔بی جے پی کویہاں صرف ایک سیٹ پراکتفا کرنا پڑا تھا۔بہرحال!اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج کا اگلے پارلیمانی الیکشن پر اثر پڑنا فطری ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان پانچ صوبوں کے الیکشن کوبہت سے سیاسی تجزیہ نگار ’سیمی فائنل‘ بھی کہہ رہے ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں کیلئے یہ الیکشن وقار کی لڑائی سے کم نہیں ہے،ایسے میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ وقار کی اس لڑائی کاسیاسی انجام کیا نکلتا ہے،کون جیت کر سکندر بنتا ہے اور کسے شکست کا سامنا کرنا پڑتاہے۔