نئی دہلی: ہر ہفتے جے پی گپتا کا دل ڈوب جاتا ہے جب وہ فون پر اپنے بیٹے کو روتے ہوئے سنتے ہیں۔یہ پچھلے جنوری میں شروع ہوا جب ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے ایک سینئر ایگزیکٹو امیت گپتا کو ان الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔تقریباً تین ماہ ہوچکے ہیں اور ہندوستان میں مقیم اس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اسے کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔یہ کہنا ہے بی بی سی کے نامہ نگارعمران قریشی کا ،جن کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ امیت گپتا تقریباًتین ماہ سے قطر میں قید ہیں۔بی بی سی ہندی کے مطابق ان کے والد نے کہا”انہیں ہفتے میں ایک بار صرف پانچ منٹ بات کرنے کی اجازت ہے۔ میرا بیٹا صرف یہ کہتا ہے کہ ‘والد، میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ اور پھر رونا شروع کر دیتا ہے”۔امیت گپتا کویت اور قطر میں ہندوستانی ٹیکنالوجی کمپنی ٹیک مہندرا کے کنٹری ہیڈ ہیں۔ 2013 میں وہ کام کے سلسلے میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شفٹ ہو گئے تھے۔
ان کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ کوئی وجہ بتائے بغیر، قطر کے اسٹیٹ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے انہیں یکم جنوری کو ان کے دفتر کے قریب ایک ریستوران سے اٹھایا گیا۔امیت گپتا کو کیوں گرفتار کیا گیا؟قطر کی وزارت داخلہ نے بی بی سی کے سوال کا جواب نہیں دیا۔بی بی سی نے تبصرہ کے لیے ٹیک مہندرا سے بھی رابطہ کیا ہے۔اس سے قبل، کمپنی کے ترجمان نے کہا تھا کہ وہ خاندان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہیں "ضروری مدد” فراہم کر رہے ہیں۔کمپنی نے کہا، "ہم دونوں ممالک کے حکام کے ساتھ فعال طور پر رابطہ کر رہے ہیں۔ ہم ضروری طریقہ کار پر عمل کر رہے ہیں۔ اپنے ساتھی کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہماری اولین ترجیح ہے”۔بھارتی سافٹ ویئر سروسز اور کنسلٹنگ کمپنی ٹیک مہندرا قطر سمیت دنیا کے 90 ممالک میں کام کرتی ہے اور اس میں 1 لاکھ 38 ہزار سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔بھارتی حکومت نے ابھی تک امیت گپتا کے معاملے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا ہے۔ لیکن ملک کی وزارت خارجہ کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ قطر میں ہندوستانی سفارت خانہ اس معاملے کی ‘قریب سے نگرانی’ کر رہا ہے۔ذرائع نے بتایا، "سفارت خانہ امیت گپتا کے اہل خانہ، ان کے وکیل اور قطری حکام سے رابطے میں ہے۔ ہمارا سفارت خانہ اس معاملے میں ہر ممکن مدد فراہم کر رہا ہے”۔تاہم، امیت گپتا کی اہلیہ آکانکشا گوئل نے کہا کہ حکومت کو ان کے شوہر کی رہائی کے لیے مزید کوششیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے شوہر ‘انتہائی ذہنی دباؤ اور صدمے’ میں ہیں۔انہوں نے لکھا، "دوحہ میں متعلقہ حکام سے ہماری بار بار کی اپیلوں کا ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا ہے”۔وزارت کو یہ خط 18 فروری کو موصول ہوا تھا اور اسے بھارتی وزارت خارجہ کو بھجوا دیا گیا تھا تاہم آکانکشا گوئل نے کہا کہ اس کے بعد اس پر مزید کچھ نہیں ہوا۔انہوں نے کہا، "ہم نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کے لیے وقت مانگا ہے۔ جب تک وہ مداخلت نہیں کرتے، ہمیں نہیں لگتا کہ کچھ ہو گا”۔
امیت گپتا کے والدین فروری میں دوحہ گئے تھے اور وہاں ہندوستانی سفارت خانے کی مدد سے وہ کسی طرح اپنے بیٹے سے ملنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کے والد نے کہا کہ جب ہم نے اسے دیکھا تو وہ ہمیں گلے لگا کر روتا رہا، وہ بار بار کہتا رہا کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے بیٹے سے قطری تفتیش کاروں نے ابھی تک پوچھ گچھ نہیں کی ہے۔جے پی گپتا نے کہا کہ اگر انہیں میرے بیٹے کے خلاف کچھ نہیں ملا تو اسے رہا کر دیا جائے۔
خیال رہے کہ کئی لاکھ ہندوستانی قطر میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ 2022 کے بعد ہندوستانیوں کی حراست یا گرفتاری کا یہ دوسرا ہائی پروفائل کیس ہے، جو مسلسل سرخیوں میں ہے۔گزشتہ سال اس خلیجی ملک کی ایک عدالت نے بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق افسران کو رہا کر دیا تھا جنہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ان افراد کے خلاف الزامات کے بارے میں قطر یا ہندوستان کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ یہ تمام افراد قطر کی ایک نجی کمپنی میں کام کرتے تھےلیکن کچھ میڈیا رپورٹس میں یہ ضرور کہا گیا کہ ان لوگوں پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام تھا۔
موت کی سزا میں تبدیلی کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سفارتی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ مودی حکومت کے قطر کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔گزشتہ ماہ فروری میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے ہندوستان کا سرکاری دورہ کیا۔ ان کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی یہاں پہنچا۔اس دورے کے دوران دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کی سطح کو بلند کیا اور اسے اسٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کیا۔امیت گپتا کے اہل خانہ ان کی رہائی کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ اب گیارہ اور چار سال کے دونوں بچوں کے سوالوں کا جواب دینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔وہ کہتی ہیں، "میرے بچے مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ ان کے والد کو کیا ہوا ہے۔ میرے بیٹے کی سالگرہ اپریل میں ہے اور وہ امید کر رہا ہے کہ امیت اس دن بھی آئے گا جیسے وہ ہر بار آتا ہے۔”