لکھنؤ؍نگرام(پریس ریلیز)’’اس وقت سب سے زیادہ ضروری اپنے، اپنے گھر والوں اور اپنی نسلوں کے ایمان وعقائد کی حفاظت کرنا ہے۔ جس طرح نبی بر حق حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے سوال کیا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہ السلام ایمان وعقائد کے تحفظ کی فکر رکھتے تھے۔ یہ فتنوں کا دور ہے، نت نئے فتنوں سے بچنے کے لیے ہم سب کو اپنے ایمان، عقائد اور عبادات کی حفاظت کرنا ہوگی۔ علمائے کرام، دینی شخصیات اور دینی اداروں سے اپنے رابطے وتعلقات مضبوط کرنا ہوں گے، دینی کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے، دینی جلسوں اور محفلوں میں شرکت کا اہتمام کرنا ہوگا‘‘۔ان خیالات کا اظہار ممتاز عالم، مصنف مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی جنرل سکریٹری رابطہ ادب اسلامی ورکن مجلس نظامت ندوۃ العلماء لکھنؤ نے کیا، وہ آج مدرسہ افضل العلوم نگرام ضلع لکھنؤ کے ساتویں جلسہ دستار بندی وتعلیمی مظاہرے میں صدارتی تقریر کر رہے تھے۔مولانا حسنی نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے اسلامی مدارس قائم کیے ہیں، یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اس لیے کہ یہی مدارس ملت اسلامیہ کی بقا وتحفظ کی ضمانت ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ مدارس کی بھر پور امداد وتعاون کریں۔مولانا جعفر نے مدرسہ افضل العلوم کے طلبہ کی تعلیمی وثقافتی مظاہروں پراپنی مسرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے مدرسے کے ناظم مولانا محمد فیضان نگرامی ندوی، مہتمم نثاراحمد قاسمی ندوی اور دیگر اساتذہ کی کوششوں اور محنتوں کی ستائش کی۔اس سے قبل مولانا ظفر الدین ندوی استاد دارا لعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ نے قرآنی آیات، احادیث نبوی اور اکابر اہل علم کے اقوال سے آراستہ اپنے پر مغز خطاب میں دینی علوم کے حصول خصوصاً قرآن کریم کے حفظ کرنے کے فضائل بتائے۔ انہوں نے آخرت میں حفاظ کرام کے بلند درجات کا تذکرہ کیا۔
مولانا ندوی نے کہا کہ مدارس قرآن کریم اور دینی علوم کی اشاعت وحفاظت کا اہم ذریعہ ہیں۔ انہوں نے طلبہ کو نصیحت کی کہ وہ خدا تعالی کی اس آخری کتاب کو اپنے سینوں میں محفوظ رکھیں، اس کے احکام اور وہدایات پر عمل کریں۔انہوں نے علمائے نگرام کی دینی، دعوتی، اصلاحی اور علمی خدمات کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے حاضرین پر زور دیا کہ وہ اس مدرسے اور اس کے ناظم مولانا فیضان نگرامی کا بڑھ چڑھ کر تعاون کریں تاکہ یہ پورا علاقہ ایمان کی محنت اور دعوت وتبلیغ کی روشنی سے روشن ہو اور علم وتعلیم، صلاح وتربیت کا عظیم مرکز بن سکے۔مدرسے کے ناظم مولانا محمد فیضان نگرامی ندوی نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں مہمانوں کا استقبال کیا ۔ انہوں نے صدر جلسہ کا تعارف کرایا، ان کی دینی، علمی تعلیمی اور ادبی خدمات کا تذکرہ کیا۔مولانا نگرامی نے کہا کہ ماضی میں نگرام اپنے علمائے کرام کی وجہ سے بہت مشہور تھا ۔ تکیہ رائے بریلی کے حضرت سید علم اللہ کے خاندان کے افراد خصوصاً حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی اور مولانا سید حمزہ حسنی ندوی کا علمائے نگرام سے بہت گہرا تعلق تھا۔ یہ مدرسہ اور افضل میموریل پبلک اسکول ان حضرات کی توجہات کا خصوصی مرکز رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان نوخیز اداروں میں دینی وعصری علوم کی تعلیم ہورہی ہے، انہوں نے مدرسے کے قیام کا پس منظر بتایا۔
انہوں نے اپنے خطبے میں قصبۂ نگرام کے باشندوں کی محبت، تعلق اور تعاون کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ ان حضرات کی امداد سے ہمارے ادارے سرگرم عمل ہیں۔مدرسے کے مہتمم مولانا مفتی نثار احمد قاسمی ندوی نے مدرسے کی سالانہ رپورٹ پڑھی ، مدرسے کے شعبوں کا رتعارف کرایا، انہوں نے جلسے کی نظامت کی۔اس سے قبل طلبہ کا تعلیمی وثقافتی مظاہرہ ہوا، اس کا آغاز محمد اشرف کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ محمد نجم، محمدارمان اور محمد احمد نے مدرسے کا ترانہ پڑھا، طلبہ نے اردود، عربی اور انگریزی زبانوں میں تقریریں کیں۔ انہوں نے موبائل فون کے فوائد ونقصانات کے موضوع پر علاقائی زبان میں دل چسپ مکالمہ پیش کیا۔ نظامت محمد بلال متعلم درجہ خامسہ نے کی۔۲۰۲۳ء مطابق ۱۴۴۴ھ میں مدرسے کے چھہ طلبہ نے قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا:محمد سلمان بن محمد نفیس بارہ بنکی، محمد سلمان بن عاشق علی نگرام، محمد ساحل بن محمد نعیم رائے بریلی، محمد اعجاز بن محمد ریاض قصبہ امیٹھی، محمد دانش بن محمد محفوظ نگرام۔اسی طرح مدرسے سے درجہ عالیہ اولیٰ تک تعلیم حاصل کر کے دار العلوم ندوۃ العلماء جانے والے یہ تین ہیں:محمد امین بن محمد عمران نگرام، محمد عرفان بن محمد شبیر نگرام، محمد انس بن محمد وسیم نگرام۔جلسے میں نگرام اور قرب وجوار کے افراد بہ شمول خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی، نیز مجیب نبی نگر، ڈاکٹر محرم علی، ڈاکٹر تاج محمد ، امتیاز قریشی،سعید قریشی ودیگر نے جلسہ کو کامیاب بنانے میں خصوصی تعاون کیا۔