کلکتہ (یواین آئی)وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے آج بنگال کی تقسیم کے مطالبات پر بی جے پی لیڈروں کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کو نظر انداز کرکے بنگال کو تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی جائےگی۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ میں آپ کو دکھادوں گی بنگال کی تقسیم کو کیسے روکاجاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے بنگال کے شمالی اضلاع جہاں سے انہیں کامیابی ملی ہے اس خطے کو بھی محروم کردیا گیا ہے ۔
سوکانت مجمدار شمالی بنگال کے بالور گھاٹ حلقہ سے کامیاب ہوکر شمال مشرقی ترقیاتی محکمہ کے وزیر مملکت بنائے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کو لکھے خط میں ریاستی بی جے پی صدر سوکانت مجمدار نے شمالی بنگال کے مرکزی پروجیکٹوں کو شمال مشرقی ہندوستان کے پروجیکٹوں کے ساتھ شامل کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس سے بنگال کی تقسیم کا تنازع شروع ہوا۔ پیر کو اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے بیان کے بعد سوکانت مجمدار نے کہا کہ’بنگالی تقسیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!‘‘
ممتا نے الزام لگایا تھا کہ ہفتہ کو دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں نیتی آیوگ کی میٹنگ کے دوران ان کا مائیکروفون بند کر دیا گیا تھا۔ ترنمول نے پیر کو اسمبلی میں مذمتی تحریک لائی، جس میں الزام لگایا گیا کہ وزیر اعلیٰ کی آواز کو دبا کر ان کی توہین کی گئی۔ بی جے پی نے مذمتی تحریک کے خلاف احتجاجاً سیشن ہال سے واک آؤٹ کیا۔ نیتی آیوگ کی میٹنگ میںمائیک بند کرنے پر بی جے پی اور مرکزی حکومت پر حملہ کرنے کے بعد انہوں نے بنگال کی تقسیم کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تقسیم کا مسئلہ انتخابات کے ختم ہونے کے بعد ہی اٹھایا جاتا ہے۔ ایک شخص کہتا ہے مرشدآباد-مالدہ توڑ دو۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ آسام کے تین اضلاع کے ساتھ کچھ نیا کرو۔ کچھ لوگ پھر سے شمالی بنگال کو شمال مشرق سے جوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔ چاروں وزراء نے شمالی بنگال کی تقسیم کے بارے میں بات کی۔ معافی چاہتی ہوں۔ بنگال کو تقسیم کرنے آؤ، میں تمہیں دکھاؤں گا کہ اسے کیسے روکا جائے۔
سوکانت مجمدار کے خط کے بعد سے ہی بنگال کی تقسیم کا مسئلہ موضوع بحث ہے۔جلپائی گوڑی کے ایم پی جینت رائے نے سوکانت مجمدار سکاکی تجویز کی حمایت کی ہے۔بی جے پی کے راجیہ سبھا ایم پی ناگیندر رائے عرف اننت مہاراج نے مطالبہ کیا ہے کہ گریٹر کوچ بہار کو توڑ کر اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا جائے۔ جھارکھنڈ کے گوڈا کے ایم پی نشی کانت دوبے جمعرات کو لوک سبھا میں مغربی بنگال کی تقسیم کا مطالبہ کیا۔ نشی کانت نے لوک سبھا کے وقفہ صفر میں بولتے ہوئےکہا کہ بنیادی طور پر آبادی کے توازن اور ملک کی سلامتی کے مسئلہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے، مالدہ کے ساتھ بہار کے کشن گنج، ارریہ اور کٹیہار جیسے اقلیتی آباد علاقوں کے ساتھ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ اور مغربی بنگال میں مرشد آباد۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بہار اور مغربی بنگال کے ان پانچ اضلاع کی آبادی کا ڈھانچہ مسلسل دراندازی کے نتیجے میں بدل گیا ہے۔ انہوں نے ان اضلاع میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو متعارف کرانے کا بھی مطالبہ کیا۔ ان کے دعوے کی تائید ضلع مرشد آباد کے دو بی جے پی ممبر اسمبلی نے کی۔ ایک مرشد آباد کے ایم ایل اے گوری شنکر گھوش ہیں، دوسرے بہرام پور کے ایم ایل اے سبرت مترا ہیں۔
ممتا بنرجی نے کہا کہ چوں کہ بنگال کے عوام نے بی جے پی کو ٹھکرادیا ہے اس لئے بی جے پی بنگال کی تقسیم کی سیاست کررہی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری نے پہلے کہا تھا کہ شمالی بنگال میں بی جے پی لیڈروں کے ایک حصےنے ریاست کی تقسیم کا جو مطالبہ کیا ہے وہ پارٹی کی پوزیشن نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کے تبصروں کو دیکھتے ہوئے سوکانت نے یہ بھی کہا کہ بنگالی تقسیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ’’وزیر اعلیٰ بے نتیجہ بات کر رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ کوئی تجویز کر رہا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ فیصلہ ہوگیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پیر کو اسمبلی میںمرکزی بجٹ میں بنگال کو محروم کئے جانے پر مرکزی حکومت کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے شمالی علاقے سے بی جے پی کامیاب ہوئی مگر بجٹ میں شمالی بنگال کیلئے بھی کچھ نہیں ہے۔شمالی بنگال سے کئی سیٹیں بی جے پی کوملیں مگر بجٹ میں کچھ نہیں دیا م ہم نے شمالی بنگال میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر 1 لاکھ 64 ہزار 764 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔