نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک) برازیلین فٹبالر پیلے 82 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ پیلے کی حالت تشویشناک ہوگئی ہے، جہاں ان سے متعلق ڈاکٹرز بھی ناامید ہوگئے تھے۔ ان کے بارے میں پہلے ان کی صاحبزادی نے بتایا تھا کہ ان کی حالت بہتر ہے اور کوئی ہنگامی صورتحال نہیں ہے۔
دو ہفتے قبل پیلے کو ایک مرتبہ پھر انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل کروا گیا تھا۔ اس سے تین دن قبل انہیں بڑی آنت کے کینسر کے آپریشن کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا۔ لیجنڈری فٹبالر سے متعلق 22 دسمبر کو ڈاکٹرز نے بتایا تھا کہ ان کی صحت بگڑ رہی ہے۔
خیال رہے کہ 82 سالہ پیلے نے 90 میچز میں برازیل کی نمائندگی کی جس میں انہوں نے 77 گول بنائے۔لیجنڈری فٹبالر 1958، 1962 اور 1970 میں فیفا ورلڈکپ کی فاتح برازیلین ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔
بی بی سی ورلڈ سروس کے فرنینڈو دوارتے نے سنہ 1995 اور 2015 کے درمیان برازیل سے تعلق رکھنے والے دنیا کے مشہور فٹبالر پیلے سے تقریباً دس ملاقاتیں کی ہیں، جس میں سے ایک ملاقات اتفاقاً لندن میں ایک فاسٹ فوڈ برانچ پر ہوئی تھی۔ پیلے سے جڑی ان یادداشتوں کو انھوں نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
آخری مرتبہ جب میری پیلے سے ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں سینٹرل لندن میں سب وے فاسٹ فوڈ کی ایک برانچ پر کاؤنٹر کے پیچھے پایا جہاں وہ اپنے سینڈوچ میں سلاد کو سنبھالنے میں مصروف تھے۔
یہ مارچ سنہ 2015 کی بات ہے اور یہ برازیلی فٹبال لیجنڈ پر برا وقت ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ امریکی فاسٹ فوڈ کمپنی کی ایک تشہیری مہم تھی۔ برازیل میں ’کنگ پیلے‘ کے لقب سے جانے جانے والے فٹبالر اس کمپنی کے ساتھ کریئر کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ وابستہ رہے ہیں۔اس وقت تک میری اور پیلے کی درجن بھر ملاقاتیں ہو چکی تھیں شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہرے پر مسکراہٹ عیاں ہوئی اور انھوں نے مجھے صحافیوں کے جھنڈ میں پہچان لیا۔خوش قسمتی سے مجھے ان کے ساتھ ون ٹو ون انٹرویو کرنے کا موقع بھی مل گیا لیکن اس دوپہر کی میری پسندیدہ یادداشت یہ تھی کہ 74 برس کی عمر میں بھی پیلے صحت مند اور تندرست دکھائی دے رہے تھے۔میں نے انھیں بتایا تھا کہ ’آپ نے سب کو ہسپتال جا کر پریشان کیا ہوا تھا کنگ۔‘ جس پر انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’کیا آپ بھول گئے ہیں کہ میں ٹریس کوراکوز نامی قصبے میں پیدا ہوا تھا ( جس کا پرتگالی زبان میں مطلب تین دلے ہے)۔ جس شخص کے تین دل ہوں اسے زمین میں دفنانا مشکل ہوتا ہے۔‘
ایک سال پہلے زیورچ میں فیفا کی ایوارڈ تقریب میں شرکت کے دوران وہ خاصے کمزور دکھائی دیے تھے۔ کسی بھی دوسرے برازیلین صحافی کی طرح میں بھی ان کی یہ حالت دیکھ کر فکرمند ہوا تھا کہ شاید اب وہ زیادہ دیر تک نہ جی سکیں۔پھر ہمیں معلوم ہوا کہ پیلے اس وقت بھی گردوں کے مسائل سے نبردآزما تھے جو اس لیے بھی سنگین ہو گئے تھے کیونکہ وہ سنہ 1970 میں ایک گردہ گنوا چکے تھے۔ ایسا مخالف کھلاڑیوں کی جانب سے ان کے 21 سالہ کریئر کے دوران کیے گیے ’ٹیکلز‘ کے باعث ہوا تھا۔جب بھی ہماری ملاقات ہوتی میں اگلے چند روز تک یہی سوچتا رہتا کہ یہ کیا ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپ ایک اوینجر سے ملاقات کر رہے ہو، جو آپ سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتا ہے۔ متعدد فٹبال مداحوں اور برازیلینز کے لیے پیلے سوپر ہیومن تھے۔ پیدائش کے بعد ان کا نام ایڈسن آرانتیز دو ناسکیمینٹو رکھا گیا تھا اور انھیں ان کے فٹبال کا عظیم ترین کھلاڑی گردانتے تھے۔جیسے جان لینن نے کہا تھا کہ موسیقی کی قسم راک اینڈ رول کو چک بیری کہا جانا چاہیے کیونکہ انھوں نے موسیقی کی اس قسم پر بہت گہرا اثر چھوڑا تھا۔ اسی طرح شاید فٹبال کا نام بھی پیلے رکھ دینا چاہیے۔پیلے تاحال وہ واحد کھلاڑی ہیں جنھوں نے بطور کھلاڑی فیفا ورلڈکپ تین مرتبہ جیتے ہیں اور وہ صرف 17 برس کے تھے جب انھوں نے پہلی بار 1958 میں یہ ٹرافی اٹھائی تھی۔12 برس بعد وہ برازیل کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے یہ میکسیکو میں کھیلا گیا ورلڈکپ اتنے جارحانہ انداز میں جیتا تھا کہ اسے اب بھی کچھ رائے عامہ کے تجزیوں کے مطابق دنیا کی بہترین ٹیم مانا جاتا ہے۔اس ٹورنامنٹ میں پیلے کی تعریف میں اٹلی کے ڈیفینڈر ٹارسزیو برگنچ نے ایک ایسی بات کہی جو آج بھی یاد رکھی جاتی ہے۔ برگنچ کو فائنل میں پیلے کی مارکنگ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ ’میں نے خود کو میچ سے پہلے یہ بات باور کروائی کہ ’یہ بھی ہم سب کی طرح گوشت پوست سے بنا ایک انسان ہے‘ لیکن میں غلط تھا۔‘
پیلے نے اس میچ میں ایک گول سکور کیا جبکہ دو اسسٹ کیے اور یوں برازیل اور پیلے نے اپنا تیسرا ورلڈکپ جیت لیا۔ یہ گول ان کے کریئر کے 1200 سے زیادہ گولز میں سے ایک تھا۔
پیلے نے ایک ایسا نقش چھوڑا جو کھیل کے علاوہ بھی قائم رہا اور آنجہانی امریکی فنکار اینڈی وارہول کو مقبولیت کے عارضی ہونے کے بارے میں اپنا مقولہ تبدیل کرنا پڑا۔وارہول نے پیشگوئی کی تھی کہ ’پیلے وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے میری تھیوری کو غلط ثابت کیا، انھیں 15 منٹ کی مقبولیت نہیں 15 صدیوں کی مقبولیت حاصل ہو گی۔‘
سنہ 1973 میں میری پیدائش کے وقت پیلے بطور انٹرنیشنل کھلاڑی ریٹائر ہو چکے تھے لیکن برازیل میں بڑے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کو اس عظیم فٹبالر کے کارناموں کے بارے میں کہانیاں سننے کا نہ ملیں۔برازیل کو سب سے زیادہ کامیاب فٹبال کھیلنے والا ملک بنانے کے علاوہ سیاہ فام پیلے نے اس سے بھی زیادہ اہم کام کیا۔ وہ ایک ایسے ملک میں قومی اثاثے کے طور پر ابھرے جس کا غلامی اور نسل پرستی کا شرمناک ماضی تھا اورجو آج تک کسی نہ کسی حیثیت میں قائم ہے۔وہ ماضی میں بھی اور آج بھی سب سے مقبول برازیلین شخصیت ہیں۔ نیویارک سے افریقہ تک میں نے جہاں بھی سفر کیا ہے میں جب کسی کو یہ بتاتا ہوں کہ میرا تعلق کس ملک سے ہے تو ان کا نام سب سے پہلے لیا جاتا ہے۔ظاہر ہے پیلے پر تنقید کرنے والے بھی تھے۔ کچھ ایسے افراد بھی تھے جن کے خیال میں پیلے کو برازیل پر 1964 سے 1985 تک حکمرانی کرنے والی فوجی حکومت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تھی کیونکہ یہ فوجی رہنما قومی ٹیم کی کامیابی سے خوب مقبولیت حاصل کرتے تھے۔
پیلے وہ پہلے کھلاڑی نہیں تھے جنھوں نے اس آمریت کے سامنے خاموشی کو ترجیح دی ہو، لیکن باقی کسی کی شخصیت میں وہ جازبیت نہیں تھی جو پیلے کے پاس تھی۔سنہ 2021 میں نیٹ فلکس پر نشر ہونے والی ایک ڈاکیومینٹری میں پیلے نے خاصے افسوس بھرے انداز میں کہا تھا کہ اس فوجی دور کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ’فٹبالرز نے کچھ زیادہ فرق نہیں ڈال سکتے تھے۔اگر میں یہ کہوں کہ مجھے ان (خلاف ورزیوں) کا علم نہیں تھا تو یہ میں غلط بیانی کروں گا۔ لیکن ہمیں واضح نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
بعد میں پیلے نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے انٹرنیشنل ریٹائرمنٹ واپس لے کر سنہ 1974 کا ورلڈکپ کھیلنے سے اس لیے منع کیا تھا کیونکہ وہ فوج کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے تھے۔