اوٹاوا /نئی دہلی: کینیڈا نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت روک دی۔ کینیڈین وزیر خارجہ میلنی جولی نے یہ بات مقامی میڈیا کو بتائی۔ خارجہ امور کے پارلیمانی سیکریٹری راب اولیفنٹ نے پارلیمنٹ میں سوال و جواب کے سیشن میں حکومت کے اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ میں جنگ بندی کی حمایت جاری رکھیں گے اور اسرائیل کو ہتھیار فروخت نہیں کریں گے۔یاد رہے کہ گذشتہ روز کینیڈین پارلیمنٹ میں اکثریت رائے سے منظور ہونے والی قراردار میں کہا گیا تھا کہ کینیڈا اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر فلسطین کی ریاست کے قیام کی سمت کام کرے گا۔کینیڈا کی پارلیمنٹ میں قرارداد کے حق میں 207 جبکہ مخالفت میں 117 ووٹ آئے تھے۔
اس حوالے سے کینیڈین وزیر خارجہ میلانیا جولی کا کہنا ہے کہ کینیڈا اسرائیل کو تمام ہتھیاروں کی ترسیل روک دے گا۔واضح رہے کہ کینیڈا نے اسرائیل کو غیر مہلک ہتھیاروں کی ترسیل جنوری سے جزوی طور پر روکی ہوئی تھی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ "کینیڈا کے پاس دنیا میں سب سے سخت برآمدی اجازت نامہ موجود ہے۔ اسرائیل کو مہلک اشیا کی برآمدات کے لیے کوئی کھلا اجازت نامہ نہیں ہے۔”
"8 جنوری سے، حکومت نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد کے نئے اجازت ناموں کی منظوری نہیں دی ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ ہم اپنے برآمدی نظام کی مکمل تعمیل کو یقینی نہیں بنا لیتے۔”
کینیڈا کا قانون ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی لگاتا ہے اگر وہ "بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی” یا "خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کی سنگین کارروائیوں” میں استعمال ہوسکتے ہیں۔ اوٹاوا کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ آیا یہ ہتھیار "امن اور سلامتی میں معاون ثابت ہوں گے یا اسے نقصان پہنچائیں گے”۔
کینیڈا کی پارلیمنٹ نے پیر کے روز غزہ کے تنازع پر ایک غیر پابند تحریک منظور کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ "اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات کی مزید اجازت اور منتقلی کو روک دے”۔
یہ مسئلہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی کاکس کے اندر تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔ ان کے تین قانون سازوں نے تحریک کے خلاف ووٹ دیا اور ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ پارٹی کے اندر اپنے مستقبل پر غور کر رہے ہیں۔حکومت کے چیف وہپ سٹیو میک کینن نے کہا کہ "یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو پورے ملک میں جذباتی ہے… اور اس کی عکاسی ہماری بات چیت میں ہوتی ہے۔”