مسیحی برادری کی تنطیموں نے الزام لگایا ہے کہ گذشتہ اتوار کو کم از کم 14 گاؤں میں قبائلی مسیحیوں پر منظم طریقے سے حملے کیے گئے
نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک): ریاست چھتیس گڑھ میں مسلسل کئی حملوں کے بعد ضلع نارائن پور کے سینکڑوں مسیحی افراد نے گرجا گھروں اورا سٹیڈیمز میں پناہ لے رکھی ہے۔ یہ دعویٰ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ مسیحی برادری کی تنطیموں نے الزام لگایا ہے کہ گذشتہ اتوار کو کم از کم 14 گاؤں میں قبائلی مسیحیوں پر منظم طریقے سے حملے کیے گئے۔ متعدد گھروں و عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر لوگوں پر پُرتشدد حملے کیے گئے۔ کرن پور گاؤں کی ایک خاتون نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ پچھلے کئی روز سے پینے کے پانی کی سپلائی بند کر دی گئی ہے۔ اور انھیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر وہ مسیحی مذہب چھوڑ کر واپس اپنے پرانے قبائلی یا ہندو مذہب میں نہیں لوٹتے تو ان کی زمین کی ملکیت ختم کر دی جائے گی۔
چھتیس گڑھ کرسچن فورم نے نارائن پور کی ضلعی انتظامیہ کو دی گئی ایک عرض داشت میں مطالبہ کیا ہے کہ جن لوگوں نے مسیحی قبائلیوں پر حملے کیے ہیں اور جنھوں نے ان کے گھر اور عبادت گاہیں تباہ کی ہیں، انھیں گرفتار کیا جائے۔
سینکڑوں مسیحی قبائلیوں نے کلیکٹوریٹ کے سامنے مظاہرہ کیا ہے اور دھرنے دیے ہیں۔فورم کا کہنا کہ موڈینگا، کونکیرا، چیرنگ اور ٹیمرو گاؤں میں مسیحی برادری کو مارنے پیٹنے کے بعد بہت سے لوگوں کو گاؤں سے نکال دیا گیا ہے۔
چھتیس گڑھ کرسچن فورم کے سربراہ ارون پننا لال نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ اکتوبر سے جگہ جگہ حملے ہو رہے ہیں ۔انھوں نے بتایا کہ ’سرو آدی واسی سماج ‘ نامی ایک دائیں بازو کی تنظیم بنائی گئی جسے دلی کی حکمراں جماعت بی جے پی اور حزب اختلاف کانگریس دونوں کی حمایت حاصل ہے۔ان کے مطابق دونوں ہی جماعتیں ’ہندو ووٹ‘ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس تنظیم کی پس پشت حمایت کر رہی ہیں۔
چھتیس گڑھ ریاست میں کانگریس بر سر اقتدار ہے۔ ارون پننا لال کا کہنا ہے کہ ’سرو آدی واسی سماج‘ کے لوگ گاؤں میں عام سبھا لگاتے ہیں اور شدت پسند ماؤ وادیوں کے طرز پر میٹنگ کرتے ہیں جن میں مسیحیوں کو چھوٹے معاملوں کا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور وہیں پر انھیں مارا پیٹا جاتا ہے۔’وہ کہتے ہیں واپس ہمارے دھرم میں آ جاؤ نہیں تو تمیں اسی طرح ماریں گے ۔ یہ ہر اتوار کو کہیں نہ کہیں ہوتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ 16 دسمبر کو 22 گاؤں میں اسی طرح کی عام سبھا یا میٹنگ ہوئی تھی جس میں 18 دسمبر، اتوار کے روز مسیحیوں پر حملے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔’ہمیں اس کی خبر مل گئی تھی۔ ہم نے اس کی باقاعدہ تحریری شکایت درج کرائی۔ 18 دسمبر کو بہت پُرتشدد حملے ہوئے جہاں پولیس پہنچی وہاں ان کے ساتھ بھی مار پیٹ کی گئی۔ ان حملوں میں بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔‘
بی بی سی نے نارائن پور کے سپرینٹنڈنٹ سدانند کمار سے دو بار فون پر رابطہ قائم کیا لیکن دونوں بار انھوں نے اس کے بارے میں بات کرنے سے منع کر دیا اور کہا بعد میں بات کریں گے۔
دلی کے مسیحی شہریوں نے اپنی برادری کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف دارالحکوت میں واقع ریاستی حکومت کے چھتیس گڑھ ہاؤس کے سامنے جمعے کو احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سرو آدی واسی سماج کا الزام ہے کہ ’مسیحی مشنریز ریاست کے بھولے بھالے قبائلی لوگوں کو ورغلا کر اور پیسے وغیرہ کی لالچ دے کر ان کا مذہب تبدیل کرا رہی ہے۔‘
ملک میں 1950 کی مردم شماری کے مطابق اس وقت ملک میں مسیحی آبادی تین فیصد تھی جو 2011 میں گھٹ کر دو اعشاریہ دو پر آگئی ہے۔اسی طرح چھتیس گڑھ میں مسیحیوں کی آبادی دو اعشاریہ 28 تھی جو 2011 میں گھٹ کر ایک اعشاریہ 92 پر آگئی ہے۔چھتیس گڑھ میں قبائلی مسیحیوں اور دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کے درمیان کشیدگی تو کئی مہینے سے چل رہی ہے لیکن پچھلے کچھ برسوں میں مسیحی برادری کے سب سے بڑے تہوار کرسمس کے دوران ملک کی کئی ریاستوں میں مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے کے واقعات میں شدت دیکھی گئی ہے۔
اس مہینے کے وسط میں دارالحکوت دلی کے علاقے بوراری کے ایک رہائشی علاقے میں ایک گھر میں بعض مسیحی شہریوں نے ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ مکان کی مالکن نے ان کے خلاف مذہب تبدیلی کا الزام لگایا جس کے بعد مقامی باشندوں نے انھیں گھیر لیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔پولیس کی مداخت کے بعد معاملہ رفع دفع ہو گیا اور کوئی کیس درج نہیں کیا گیا۔
لکھنؤ پولیس نے بھی پڑ وسی ضلع سیتا پور میں دو مسیحی مبلغوں کو تبدیلی مذہب کا لالچ دینے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ ایڈیشنل ایس پی نریندر پرتاپ سنگھ نے بتایا کہ گاؤں والوں نے اجتماع کے مقام کو گھیر لیا تھا۔ان کا الزام تھا کہ یہ لوگ مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں چار برازیلین شہری بھی تھے۔ انھیں فوراً ملک سے باہر بھیجنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جبکہ لکھنؤ کے دو مبلغ ڈیوڈ استھانہ اور ان کی اہلیہ روہنی ڈیوڈ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پوری دنیا میں مذہبی آزادی کی صورتحال پر نظر رکھنے والے امریکہ کے ادارے یو ایس سی آئی آر ایف نے انڈیا میں مذہبی اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں اور عدم رواداری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی مختلف ریاستوں نے تبدیلی مذہب کے خلاف انتہائی سخت قوانین بنائے ہیں جنھیں اکثر مسیحی مبلغوں اور شہریوں کے خلاف بے جا استعمال کیا جاتا ہے۔
ملک کی حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ’انڈیا ایک فعال جمہوریت ہے اور یہاں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر شہری کے ساتھ برابر کا سلوک کیا باتا ہے۔ اور ہر شہری کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔‘