نئی دہلی(یو این آئی) سپریم کورٹ نے ریاستوں میں نائب وزیر اعلیٰ کی تقرری کی روایت پر سوال اٹھانے والی ایک مفاد عامہ کی عرضی کو پیر کو خارج کر دیا چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے ‘پبلک پولیٹیکل پارٹی’ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ نائب وزیر اعلیٰ صرف ایک عہدہ ہے، جو کسی آئینی شق کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے بنچ نے درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے وکیل سے کہا کہ نائب وزیر اعلیٰ کو دوسرے وزراء سے صرف سینئر سمجھا جاتا ہے، لیکن وہ ان سے زیادہ تنخواہ نہیں لیتے ہیں۔
وکیل نے پھر دلیل دی کہ نائب وزیر اعلیٰ کی تقرری سرکاری محکمے میں دیگر افسران کے لیے غلط مثال قائم کر رہی ہے۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ان کی تقرری کی بنیاد کیا ہے؟ بنیاد صرف مذہب اور سماج کا مخصوص فرقہ ہے۔ اس طرح کے ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدے پر تقرری کی کوئی دوسری بنیاد نہیں ہے۔انہوں نے دلیل دی کہ ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ آئین کے آرٹیکل 14 کے خلاف ہے۔بنچ نے تاہم کہا کہ ایک نائب وزیر اعلیٰ ایک ایم ایل اے اور ایک وزیر ہوتا ہے۔ اس طرح یہ عہدہ کسی آئینی شق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔پی آئی ایل میں سوالات اٹھائے گئے تھے کہ ریاستوں میں نائب وزیر اعلیٰ کی تقرری کا آئین میں کوئی بندوبست نہیں ہے۔اس پر بنچ نے کہا، “ایک نائب وزیر اعلیٰ ریاست کی حکومت میں پہلا اور سب سے اہم وزیر ہوتا ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ آئینی عہدہ کی خلاف ورزی نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے کہا، ‘اس عرضی میں کوئی میرٹ نہیں ہے، اسے خارج کیا جاتا ہے۔